7.اک لڑکی ناواقف و باخبر ہے اک انجانے شخص کے راز سے

Màu nền
Font chữ
Font size
Chiều cao dòng


اسلام علیکم...🔔
🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥اُمید ہے آپ خیرت سے ہونگیں🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥🐥
.
.
.
.
.
.
.................................................................
دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔۔۔
مایا کچھ کہتے کہتے رک گئی۔۔۔۔۔
"آ جائیں۔"
علیزہ کے بولنے پر فوزیہ باجی اندر آئیں۔وہ ان لوگوں سے ناشتے کے وقت مل چکی تھیں۔
"مایا ۔دانیہ یہاں پہنچنے والی ہے اور اسے گھر کا نہیں پتہ تو میں اسکو بیکڑی کے پاس تک لینے جا رہی ہوں۔"
فوزیہ باجی نے دانیہ کو بیکڑی تک کا رستہ سمجھا دیا تھا۔
"میں بھی آ جاؤں ؟فوزیہ باجی مجھے منٹس لینی ہے۔"
رانیہ فورا ًسے بولی۔اسکے ذہن میں منٹس ہی چل رہی تھی اور مایا منٹس کے ذکر پر چڑ گئی ۔
"اٌف! تمہیں ان کے علاوہ اور کوئی چیز سوجی ہے کبھی؟"
مایاکے طنز پر رانیہ نے معصومیت سے کندھے اٌچکا دیے۔
"میں لے آؤں گیں۔تم کیوں تکلف کر رہی ہو۔"
فوزیہ باجی مایا کے چڑھ جانے پر ہنس کر بولیں ۔
"نہیں میں بھی چلتی ہوں۔"
رانیہ اسرار کرتی بولی۔
"ویسے دانیہ کون ہے؟"
رانیہ کے دماغ میں باہر جانا چل رہا تھا کہ اس کے دماغ میں یہ سوال ہی نہ آیا جو علیزہ نے ذرا تپتیشی انداز میں پوچھا۔
"فوزیہ باجی کی چھوٹی بہن ہے۔"
مایا نے عام سے انداز میں جواب دیا ۔ مگر وہ دونوں پہلے ایک دوسرے کو پھر ان دونوں کو خیرت سے دیکھنے لگیں۔
"آپ کی بہن؟"
رانیہ نے فوزیہ باجی کو خیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا کیوں کہ انہوں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ فوزیہ باجی کی کوئی بہن بھی ہے۔ البتہ انہیں یہ پتہ تھا کہ ان کے بھائی ہیں۔
"جی،میری بہن۔چھوٹی بہن ہے۔"
وہ ان کی خیرت کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولیں۔
"اللہ آپ کو پوچھے کہ آپکی بہن ہے اور آپ نے کبھی ہم سے ذکر بھی نہیں کیا۔"
وہ دونوں شکوہ کرتی بولیں۔
"اب دونوں ڈرامے کرنے نہ شروع ہو جانا۔"
مایا نے انہیں سختی سے تنبیہ کیا کیوں کہ وہ انھیں جانتی تھی کہ چھوٹی سی بات کو بھی اگر موقع ملے تو کتنا بڑھا دیتی ہیں۔
مایا کے کہنے پر وہ دونوں منہ بنا کر بیٹھ گئی تو مایا اور فوزیہ ہنس دیں۔
"آؤ چلیں۔"
فوزیہ باجی بولیں تو رانیہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ان کے ساتھ چلی گئی۔
انکے جانے کے بعد وہ دونوں لاؤنچ میں آ گئیں۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آئیں تو رانیہ دانیہ سے مل کر کافی خوش لگ رہی تھی ۔
مایا اس سے اپنائیت سے ملی مگر پھر بھی دانیہ کی جھجھک سب پر صاف ظاہر تھی۔اس کے بعد علیزہ بھی اس سے ویسے ہے اپنائیت سے ملی ۔
"اسلام علیکم۔"
ان دونوں نے سلام کیا تو اس نے ہلکی سی ہی آوازمیں جواب دیا۔
"وعلیکم اسلام۔"
دانیہ نے کشمیری طرز کا ابایا پہنا ہوا تھا جو اس پر جچ بھی رہا تھا۔
"کیسی ہیں آپ؟"
مایا نے خوشگوار لہجے میں اس سے پوچھا تو دانیہ کی جھجھک ذرا کم ہوئی۔مایا کو یہ پہلے سے معلوم تھا کہ دانیہ ذرا شرمیلی ہے مگر اتنی ہوگی۔۔۔اسے اندازہ نہ تھا۔
"الحمداللہ! آپ کیسی ہیں؟"
وہ بھی مایا کے لہجے میں ہی مگر ذرا شرمیلے انداز میں بولی۔
"الحمدللہ! "
ان دونوں نے بھی مختصرا ًجواب دیا۔
"دانیہ! اب آپ ابایا اُتار دیں۔"
اسنے ابایا اتارا تو اسنے جامنی رنگ کی شلوارقمیز کے ساتھ اسی کے ساتھ کے جامنی ڈوپٹے کا حجاب کیا ہوا تھا جو اس پر جچ بھی رہا تھا۔وہ سفید و سرخ خوبصورت رنگت کی حامل مناسب سے قد کی ایک کم عمر ی مہذب لڑکی تھی،وہ بھی فوزیہ جیسی ہی تھی۔۔مایا کو وہ بہت خوبصورت لگی تھی۔وہ دکھنے میں بھی نازک اور حیاءدار بھی تھی جیسا اسکا ذکر فوزیہ نے کیا تھا۔لگتا نہیں تھا کہ دو بچوں کی ماں ہے۔ہے تو وہ مایا ہی کی عمر کی تھی مگر ان کے ہاں شادیاں چھوٹی عمر میں ہی کر دی جاتی تھی ۔یہ سوچ کر ہی مایا کا سر چکڑانے لگا اور اسنے پیشانی پر آیا پسینہ صاف کیا۔ اس نے اس سوچ کو جھٹکا اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئ ۔
فوزیہ باجی میں ان کے لیے کچھ لے کر آتی ہوں۔""
مایا کو یاد آیا کے فوزیہ باجی نے اسی کی اسرار پر دانیہ کو بلایا تھا اور وہ مہمان نوازی کرنے کر بجائے آرا م سے بیٹھی ہےَ۔
"نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے۔"
اسنے فورا منا کر دیا جو مایا کو اچھا نہ لگا۔
"کیسے نہیں ہے؟ دانیہ آپی، آپ انکی مہمان ہیں اورمیزبانی کروانا آپکا حق ہے۔"
علیزہ دانیہ کو آنکھ دباتی بولی۔
"مجھے دانیہ ہی کہیے۔"
وہ ہلکا سا بولی تو مایا کے لبوں پر فتح خانہ مسکراہٹ آئی۔
"آپ بھی پھر ہمیں مایا اور علیزہ ہی کہیں۔"
"نہیں۔"
اسکی زبان سے بےساختی نکلا۔
"مجھے اچھا لگے گا،دانیہ۔"
رانیہ بولی ۔ تو اس بار وہ منع نہ کر پائی اور سر اثبات میں ہلا دیا۔
مایا کچن کی طرف جانے لگی تو فوزیہ کھڑی ہوئیں۔
"مایا تم اپنے مہمان کے پاس بیٹھوں میں جاتی ہوں۔"
وہ مایا کو آنکھ دبا کر بولیں کیونکہ دانیہ کی گھبراہٹ سے اچھی طرح واقف تھیں۔ مایا سمجھ گئی اور جواب میں اسنے خود بھی آنکھ دبائی۔
"کیوں نہیں۔"
وہ کہتی دانیہ کے ساتھ بیٹھ گئی ۔تو فوزیہ کے جانے کے بعد علیزہ اور رانیہ بھی قریب آ کر بیٹھ گئیں۔
"اب تو دانیہ آپ ہمارے قبضے میں ہیں۔"
رانیہ اس کو ڈرانے کے انداز میں بولی۔
"تم دونوں کچھ الٹا سیدھا نہیں کرو گی۔"
وہ کچھ اور کہتی مایا نے ان دونوں کو وہیں تنبیہہ کر دی۔
"ہم تو بس تھوڑی سی جان پہچان کر نے والے تھے ۔"
علیزہ معصومیت سے بولی۔
""دانیہ تم نے ان کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں دینا۔اگر دیا تو تمہیں پتہ بھی نہ چلے گا کب یہ تمہارے بچوں کے مستقبل پر پہنچی ہوں گیں۔"
وہ ان دونوں کو دیکھتی دانیہ کو تنبیہہ کرتی بولی۔
دانیہ اسکی بات پر ہنس دی۔
"دانیہ آپکے بچے کدھر ہیں؟"
رانیہ نے بچوں کا سن کر بچوں کا سوال کیا۔
"انھوں نے آتے ہوئے کامران بھائی کو دیکھا تو انہی کے پاس رک گئے تھے۔"
دانیہ بولی ۔
"میں انہیں ابھی لے کر آئی ۔ان کے ساتھ بھی ذرا بنا لوں ۔ویسے بھی بچوں کو میں اچھی لگتی ہوں۔"
علیزہ اٹھتی بولی تو مایا فورا سے بولی۔
"نہیں ۔خبردار جو تم یہاں سے اٹھی۔وہ تو تمہارا سامنا کرنے سے بھی اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔جب دل کیا منہ اٹھائے کسی کے ساتھ بھی شروع ہو جاتی ہو۔"
"یار مینے کیا کیا؟"
وہ معصومانہ شکل بنا کر بولی تو دانیہ مسکرہ دی ۔ظاہر سی بات تھی مایا کامران بھائی کی بات کر رہی تھی اور دانیہ کو فوزیہ نے علیزہ کی ان چلبلی سی حرکات کا پہلے سے بتایا ہوا تھا بس دیکھنے کا آج اتفاق ہوا تھا۔۔
مایا نے اسکے اسطرح سےمعصوم بن جانے پر بھویں اچکائی تو اسنے ہار مان ہی لی۔
"اچھا اچھا ۔ٹھیک ہے۔پر مینے تو صرف حال پوچھا تھا۔"
اسکا کہنے کا مطلب تھا کہ میری نیت صرف حال پوچھنے کی تھی باقی باتیں تو پتہ نہیں کہاں سے ذہن میں آجاتی ہیں اور پھر زبان پر۔
"صرف حال؟تم نے انکا نہ ماضی چھوڑنا تھا نہ مستقبل اگر وہ خود نہ بھاگتے۔"
مایا نے اسکے جملے کو اسکی اصل شکل دی۔
"بہن کم بولا کرو۔کہیں تمہیں نوبل پرائز نہ مل جائے اور تم روتی رہوکہ میں تو بولتی نہیں ہوں۔"
رانیہ نے اس پر طنزکیا تو اسنے ناک سکیڑ کر روخ دوسری طرف کر لیا۔
دانیہ اس بار ان کی باتوں پر کھل کر ہنسی او ر اسے خیرت بھی ہوئی تھی۔
"آپکو پتہ ہے دانیہ کافی عرصے پہلے کی بات ہے ۔اسنے ان سے پوچھا کہ کیا شادی سے پہلے انکی کوئی گڑفرینڈ تھی؟"
یار وہ اتنے ہینڈسم ہیں ۔مجھے لگا جب کراچی رہتے تھے اس وقت تو ضرور ہو گی۔ویسے بھی لڑکی چاہے جیسی بھی ہو۔اسکے بوائے فریڈ کے مواقع کم ہوتے ہیں جب کہ لڑکا چاہے جتنا شریف کیوں نہ ہو۔اسکے 80٪تک کے مواقع تو ضرور ہی ہوتے ہیں۔"
علیزہ ناک چڑھا کر بولی اور دانیہ سمیت ان تینوں نے اسے افسوس سے دیکھا۔
"ہاں! تم اپنے بھائی کا بتا رہی ہو نا؟"
رانیہ نے ہوا کا روح واپس اسکی طرف کر دیا۔
"اللہ نہ کرے۔اسکی تو میں نے زبردستی شادی طے کروادی ہے۔"
اسنے ان دونوں ہی کو بڑی طرح سے جھٹکا دیا تھا۔
"کیا واقع میں؟"
مایا کو یقین نہ آیا۔
"یار ایک دن ہم کسی مال میں تھے تو ہمیں ایک لڑکی ملی تھی ۔اسنے اچانک سے عمر بھائی کو دیکھا تو اسکی تو خوشی کی انتہا ختم ہی نہیں ہو رہی تھی اور تو اور وہ لفٹ مانگتی جارہی تھی اور وہ بے حیاء بہن کےسامنے لفٹ کرواتا جا رہا تھا۔"
حقیقتا ایسا کچھ نہ تھا بلکہ وہ بےچاڑا تو اس لڑکی سے یونی میں بھی بھاگتا پھرتا ہے۔
"نہیں ۔مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کچھ ہوگا۔تم ہو بھی الٹے دماغ کی ۔کبھی سیدھی بات تو تمہیں سمجھ میں نہیں آئی۔"
رانیہ علیزہ کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی اور علیزہ اسے آنکھیں سکیڑتی دیکھ رہی تھی۔ابھی اسنے بھی کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ مایا بول اٹھی۔
"وہ ہے کون؟''
"بس ہے کوئی ۔تم لوگ اسے نہیں جانتے ۔"
فوزیہ باجی بھی آ گئیں۔۔۔۔۔
""کیا بات ہو رہی ہے؟
فوزیہ باجی نے مایا کے ساتھ بیٹھتے پوچھا ۔
"عمر بھائی کا رشتہ کروا دیا ہے۔"
رانیہ نے عام سے انداز میں جواب دیا۔
"ہاں مجھے کامران نے بتایا تھا۔تم تینوں کو مبارک ہو۔"
رانیہ اور مایا کو سمجھ نہ آئی کہ ہم تینوں کو کیوں؟
"ماما ! ماما! سویرا مجھے تنگ کر رہی ہے۔"
وہ دونوں دانیہ کی طرف بھاگتے ہوئے آئے۔
"کیا ہوا؟"
مایا دانیہ کے ساتھ بیٹھی تھی۔وہ خمزہ کی طرف جھک کر بولی۔
"آپ کون ہیں؟"
خمزہ مایا کو پھر دانیہ کو دیکھتا بولا۔وہ دونوں بچے مایا کو حالی حا لی نظروں سے دیکھنے لگے تو مایا کو ان پر بےحد پیار آیا۔
"میں آپکی خالہ ہوں۔"
مایا انہی کے انداز میں بولی تو سویرا کھلکھلا اٹھی۔
"نہیں میری خالہ فوزیہ خالہ ہی ہیں۔"
خمزہ اسکی بات کا عتراض کرتا بولا۔
اسکے انداز پر ان سب کا قہقہہ کمرے میں گونجا۔
"میں بھی ہوں۔"
مایا اسکے ننھے ہاتھ پکڑتی بولی تو اس نے دانیہ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"ماما یہ ہماری خالہ ہیں؟"
"جی یہ آپکی خالہ ہیں۔"
دانیہ کے کہنے کے فورا بعد اسنے مایا کے گال چوم لیے۔
"خالہ جان۔"
وہ مایا کو پیار سے بولا تو مایا کو یقین نہ آیا کہ یہ وہی خمزہ ہے جو ابھی اس کے پاس کھڑا ہونا بھی نہیں چاہ رہا تھا کیوں کہ وہ اسکی کچھ نہیں لگتی تھی۔
"ادھر آؤ۔ میں بھی تمہاری خالہ ہوں۔"
وہ رانیہ کے کہنے پر رانیہ کی گود میں جا بیٹھا تو وہ چاروں ہنس دی ۔
"ماما آج آپ نے بابا سے بات نہیں کروائی۔"
سویرہ دانیہ کے پاس بیٹھتے اسکو یاد کرواتی بولی۔
"بعد میں کر لیں گیں بات۔"
دانیہ مختصر سا جملہ بول کر خاموش ہو گئی۔
بابا سے روز بات کرتی ہے میری گندی بچی؟''''
فوزیہ باجی نے اسے پیار کرتے پوچھا۔
"جی۔وہ روز کال کرتے ہیں آج نہیں کی۔"
سویرہ اداسی سے بولی اور ایسا کرتے اسکے پھولے گال اور پھول گئے
"کوئ بات نہیں ۔آج آپ انہیں کال کر لینا ۔ ابھی آپ جوس پیو۔"
وہ اسے جوس کا گلاس تھماتی بولیں تو اس نے دونوں ہاتھوں سے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا۔
ویسے دانیہ آپکی شادی اتنی چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی۔کیا آپ کو اس پر اعتراض نہیں ہوا تھا؟۔فوزیہ باجی" "نے بتایا تھا کہ آپکی فیملی میں لڑکیوں کی جلدی شادی کر دی جاتی ہے۔
علیزہ ہی ایسا سوال پوچھ سکتی تھی ۔
"تب تو یہ اتنے غصے میں تھی میں تمہیں کیا بتاؤں۔"
فوزیہ باجی مسکرا تی ہوئی بولیں۔
"جی تھا مگر جیسے جیسے شادی کے دن قریب آتے گئے میں نے اسکو اللہ کا حکم مان کر تسلیم کر لیا تھا۔"
دانیہ نے مدھم سا مسراتے ہوئے جواب دیا۔
" تب آپکے شوہر کیسے تھے ؟''
پھر سے سوال علیزہ ہی کی طرف سے کیا گیا تھا۔
"یہ کیا پوچھ لیا تم نے علیزہ۔پہلے دن ہی اسنے ہمیں فجر کے وقت کال کر کے ڈرا دیا تھا۔ پوچھا تو بولی کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔"
فوزیہ باجی ہنستی ہوئی بولی اور دانیہ شرمندگی سے کندھے اچکاتی ہاتھ مسلنے لگی۔
"کیا آپ کے شوہر ڈراؤنے ہیں؟"
علیزہ کے دماغ میں جیسے ہی اگلا سوال آیا اسنے بغیر دیر کئے پوچھ لیا۔
نہیں ۔ محسن تو سیدھا سادھاہے۔ جب میں دانیہ کے کال کر کے بھلانے پر دوپہر میں اسکے پاس آئی تو میرے آنے سے پہلے وہ خود کتنے جتن کر چکا تھا یہ پوچھنے کےلیے کہ آخر اسے ہوا کیا ہے۔"
مایا جن نظروں سے دانیہ کو دیکھ کر مسکرائی تھی دانیہ کا چہرہ سرخ پڑنے لگا اور وہ اپنے چہرے کو چھپانے کےلیے جھکا گئی۔
"اور جب میں نے اسے اسکا مسلہ بتایا کہ اسے فضول میں ڈر بہت لگا ہے تو وہاں اس وقت اسکے دیور بھی تھے ۔یہ سنتے ہی وہ ہنسنے لگے اور اکثر ہی اپنی بھابھی کو اس بات پر تنگ کرنے لگتے ہیں۔"
"مطلب انکے شوہر کافی اچھے اور سویٹ ہیں۔"
رانیہ بات کے اختتام پر پہنچ گئی کہ اسے پہلے علیزہ کے دماغ میں کچھ الٹا سیدھا پوچھنے کے لیے آتا۔
"ہاں تم کہہ سکتی ہو۔"
"فوزیہ باجی آپ کہہ رہی تھیں کہ کوئی مسلہ چل رہا ہے۔"
مایا یاد آنے پر بولی۔
"وہ مسلہ ؟ وہ تو اس آدمی کے بارے میں تھا۔ دانیہ اسکاکیا نام تھا؟"
فوزیہ باجی کو اسکا نام یاد نہیں تھا۔
"آید۔"
دانیہ نے اسکا نام مدھم لہجے میں لیا ۔
"ہاں آید۔ مجھے اسکا نام یادنہیں رہا تھا ۔"
مایا فوزیہ باجی کا یہ جملہ نہ سن پائی ۔تھی کیوں کہ اسکا سانس آید کا نام سنتے ہی خلق میں اٹک گیا تھا۔

"ویسے۔۔۔ اس آدمی کا مسلہ کیا ہے
مایا نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔"
"کیا مطلب؟"
کسی کو مایا کے سوال کی سمجھ نہ آئی ۔اسکا پوچھنے کا انداز ہی کچھ ایسا تھا۔
دانیہ نے اسے ناسمجھی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"اسی کا کوئی مسلہ تھا نا جس وجہ سے آپ یہاں آئی ہیں؟"
مایا فوزیہ کو پھر دانیہ کو دیکھتے ہوئے بولی۔
"نہیں تو ۔مجھے بابا نے کہا تھا کہ میں کافی عرصے سے اماں کے ہاں نہیں گئی تو مجھے اب جانا چاہیے۔"
وہ فوزیہ کو پھر مایا کو دیکھتی بولی۔
" یہ کہیں آید سلیمان تو نہیں۔"
آید کا نام رانیہ کے منہ سے سن کر مایا کو ایک اور دھچکا لگا۔
"جی انکا نام آید سلیمان ہی ہے۔"
"تمہیں اس آدمی کا کیسے پتہ؟"
مایا نے خیرت ذدہ ہو کر سوال کیا۔
"اس کو کون نہیں جانتا۔خاص طور پر لڑکیوں میں سے۔"
رانیہ نے عام سے انداز میں جواب دیا مگر مایا کی ہارٹ بیٹ معمول سے بڑھ گئی ۔
''مطلب یار کہ تم نے کبھی آید سلیمان کا نام نہیں سنا۔"
علیزہ کو یقین نہ آیا کہ ایسا بھی کوئی ہو سکتا ہے جو آید سلیمان کو نہ جانتا ہو۔
"سنا ہے"
اسے یکدم یاد آیا کہ زینب نے بتایا تھا کہ ادھا شہر اسکا دیوانہ ہے۔
"یار کیا پرسنیلیٹی ہے اس کی۔"
علیزہ کھوئی کھوئی سی بولی تو رانیہ اور مایا نے ایک دوسرے کو اور پھر اسے دیکھا ۔
"تمیز سے۔ تمہارے مامو کا بیٹا نہیں ہے جو تعریفوں کے پل باندنے لگی ہو۔"
مایا بھویں اچکاتی بولی تو علیزہ اس انجانے سے شخص کی شخصیت کے سحر سے باہر نکلی۔
"اگر ہوتا نا تو میری جوتی بھی اسکا کبھی نہ سوچتی۔"
علیزہ نظروں کو خلاء میں مرکوز کرتی بولی۔
"اٗف یار۔"
رانیہ جانتی تھی کہ وہ اپنے جملے سے خود بھی متفق نہیں ہے۔
"مجھے اس کے بارے میں جاننا ہے۔''
مایا فوزیہ باجی کو دیکھتی بولی تو فوزیہ باجی نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے اسے دیکھا اور وہ ہر برا گئی۔
"ویسے ہی۔ "
اسکے جملے کے مکمل ہونے سے پہلے ہی علیزہ بول اٹھی۔
"مجھے بھی اسکے بارے میں جاننا ہے۔ دانیہ آپ بتائیں کہ آخر یہ شخص ہے کیسا؟۔"
علیزہ کی آنکھیں تجسس کے مارے چمک رہی تھیں۔
"اتنا سخت قسم کا انسان مینے کبھی نہیں دیکھا۔"
مایا نے اسکی سرد مہر آنکھیں یاد کی تو کپکپا گئی۔
"تم نے اسے دیکھا؟۔"
علیزہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"جی۔"
مایا پہلے تو ہربرا گئی مگرپھر اپنی ہربراہٹ چھپا کر بولی۔
"کب؟"
رانیہ نے خیرت سے سوال کیا۔
"یاد نہیں۔"
وہ عام سے لہجے میں کندھے اچکا تی بولی تو رانیہ اور علیزہ کا منہ کھلاکا کھلا رہ گیا ۔وہ یک دم بولیں۔
"یہ بھولنے کی چیز تھی؟۔"
"آپ لوگ ان کی شخصیت سے کافی متاثر لگتی ہیں ۔"
دانیہ کے بولتے ہی ان تینوں کو چپ لگ گئی اور وہ تینوں ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگیں۔یہ دیکھ کر وہ دونوں بہنیں ہنس دیں۔
"ویسےمینے سنا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں رہتا جبکہ وہ بھی کشمیر میں ہی رہتے ہیں۔"
مایا کا سوال رانیہ اور علیزہ کے ذہن میں گھومنے والے سوالوں سے بہت منفرد تھا۔ انہیں آید کے بارے میں وہ جننا تھا جو مایا پہلی نظر میں جان چکی تھی مگر وہ اپنے آپ سے ہی بے خبر تھی۔ وہ آید کی نظروں سے ہو کر اسکی روح کو پہنچ کر سب راز جان گئی تھی مگر یہ راز اسے معلوم نہ تھااور شاید کبھی نہ معلوم ہو۔ مگر قدرت جانتی ہے۔
"وہ ان سے ناراض ہے ۔اسی وجہ سے۔"
دانیہ ایک سادہ شخصیت کی لڑکی تھی ۔جھوٹ بولتے ہوئے اسکے ماتھے پر پسینہ آ گیا اور یہ مایا کو بتا گیا کہ بات یہ نہیں ہے مگر وہ کہہ کیا سکتی تھی۔
"کیسی ناراضگی؟''
علیزہ نے فورا سے سوال کر دیا۔
" یہ ان کے خاندان کے آپس کی بات ہے میں نہیں جانتی۔"
تبھی مایا کو یاد آیا کہ وہ تو بچپن سے ان سے الگ رہ رہا ہے۔ آخر اتنے چھوٹے بچے کی اپنے گھر والوں سے کیا ناراضگی ہو سکتی ہے۔ اسے غصہ آیا کہ آخر بات کیا ہے مگر اسے سوال کرنا ناگوار سا لگا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اسے خاموش رہنا پرا۔
مایا نے دانیہ کی بات پر سر ہلا دیا اور علیزہ کا منہ بن گیا کہ وہ پوری بات نہ جان پائی کہ آخر ناراضگی کیوں تھی۔
"لڑکیوں اب ہمیں چلنا چاہیے۔"
رانیہ گھڑی کو دیکھتے بولی۔
"ارے ہاں۔"
مایا کا بھی دھیان ابھی وقت پر گیا۔
"انکل سے بھی ابھی ملنا ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ ہم آج واپس ادھر آئیں گیں"
علیزہ بولی تو مایا کو غصہ آیا یہ جان کر کے اسکے واپس آنے کے ارادے نہیں ہے مگر وہ کچھ کہتی اس سے پہلے فوزیا باجی بول اٹھیں۔
"کیوں؟ کہا ں جا رہے ہو تم لوگ۔"
"ہم ویسے ہی ذرا گھومنے اور پھر علیزہ کے گھر جانے کا ارادہ ہے۔"
"ارے تم لوگ دوپہر کا کھانا تو یہاں کھاؤ۔"
فوزیہ باجی محبت سے بولیں۔
"پلیز باجی۔ اگلی بار میں رات کا کھانا بھی کھاؤں گی۔"
علیزہ بتیسی نکالتے ہوئے بولی کیونکہ جانتی تھی کہ اسکے کہنے ہی کی بات ہے۔
فوزیہ باجی افسوس سے سر کو نفی مین ہلاتے عزیز کو بلانے کےلیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
انہوں نے عزیر کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو کچھ لمحوں کے بعد عزیز صاحب نے دروازہ کھولا اور فوزیہ کو دیکھ کر مسکرا دئیے۔
"بیٹا کیا ہوا ہے؟"
انہوں نے سادہ مسکراہٹ لبوں پر سجاتے پوچھا۔
"دانیہ آئی ہے اور علیزہ اور رانیہ بھی۔"
انکی مسکرا ہٹ کے ساٹھ انکی آنکھیں بھی چمک آٹھیں۔
"اچھا۔ کب آئیں ہیں؟''
انہوں نے خوشی سے پوچھا۔
"کافی وقت ہو گیا ہے۔''
پھر فوزیہ آ گئیں اور اسی کے کچھ لمحوں کے بعد عزیز بھی آگئے۔
انکو دیکھ کر رانیہ اور علیزہ جلدی سے کھڑی ہوئیں اور خوشی و اپنائیت سے ملیں۔
"اسلام علیکم۔"
ان دونوں نے سلام کیا اور ادب کے ساتھ ان سے سر پر پیار لیا۔
"وعلیکم اسلام۔کیسی ہیں گڑیاں؟"
وہ ہنسے ہوئے بولے۔ اور دانیہ پر انکی نظر پڑی تو دانیہ بھی فورا سے کھڑی ہوئی اور ان سے ادب کے ساتھ پر پیار لیا اور سلام کہا۔
"الحمداللہ۔"
وہ دونوں یکدم بولیں اور اپنی جگہ پر واپس بیٹھ گئیں۔
"کیسے ہو بچے آپ؟"
انہوں نے دانیہ سے محبت و شفقت سے پوچھا۔
"الحمداللہ انکل ٹھیک ہوں۔"
وہ سر کو جانبخش دیتے ہوئے بولی۔ ان دونوں کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ عزیر پہلے بھی دانیہ سے مل چکے ہیں اور مایا نہیں جانتے تھی۔مایا کو ابھی پتا چلا تھا۔
عزیز کچھ دیر انسے باتیں کرتے رہے اور حال احوال دریافت کرتے رہے ۔پھر فوزیہ باجی دانیہ کو اپنے کمرے میں آرام کے لیے لے اوربہت سی باتیں کرنے کے لیے گئیں ۔آخر کو بہنیں تھیں اورویسے بھی دانیہ نے شام کو ہی جانا تھا کیونکہ فوزیہ باجی نے انکو اتنی جلدی جانے نہیں دینا تھا۔
مایا لوگ کمرے مین ابایا پہننے چلی گئیں۔

"علیزہ یار ویسے بتاؤ کہ تمہاری ہونے والی بھابھی کیسی ہے؟"
رانیہ کسی خیال میں گم تھی ماس نے سوال سن کر سر ہلا دیا مگر جب اسے سوال سمجھ میں آیا تو جیسے مایا کے سوال نے رانیہ کے جسم میں کرنٹ چھوڑ دیا ہو۔
"میری بھابھی بہت خوبصورت ہے سمجھدار بھی اور ہاں وہ بھائ کو بہت پسند بھی ہے۔'
اس پر رانیہ اور مایا کی خیرت سے آنکھیں بڑی ہو گئیں۔
"بھائی کو کوئی لڑکی پہلے سے پسند تھی؟''
مایا علیزہ کی بات کو ہضم کرتی بولی۔
"ہاں۔ "
وہ عام سے انداز میں کندھے اچکاتی بولی۔
یہ تمہیں کیسے پتا ہے ؟"
رانیہ نے آنکھیں سکیڑتیے ہوئے اس سے پوچھا کیوں کہ اگر ایسی بات ہوتی تو علیزہ ان سے بھی ضرور ذکر کرتی۔
"مجھے تو ہمیشہ سے پتہ تھا۔"
وہ کندھے اچکاتی بولی تو مایا اور رانیہ کا دل کیا کہ اسکا سر دیوار سے مار کرضود خاموشی سے بیٹھ کر اسکی کی گئی باتوں کو ہضم کر لیں یا نہ ہو تو اسکا گلا دبا دنے پر آ جائے۔
"تم نے ہمیں کبھی اس بارے میں کیوں نہیں بتا یا؟'
مایا غصے سے بولی۔
رانیہ کو شکوہ کرنا اچھا نہ لگا مگر مایا کو بہت غصہ آیا تھا۔
"کیوں کہ تم دونوں کو تو یہ ہمیشہ سے پتہ تھا۔"
وہ ہر جیز سے مطمئن سکارف کو سر کے گرد لپیٹتی بولی اور وہ دونوں کب سے اسکی گولمول باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہیں تھیں مگر سمجھ نہیں پا رہی تھیں۔
"کیا مطلب؟ یہ لڑکی کون ہے؟"
رانیہ اب چڑ کر بولی۔کیونکہ وہ مشکلوں سے اپنی آنکھوں کی نمی کو روک پا رہی تھی۔
" اچھا سنو تو بات کیسے پکی ہوئی۔"
علیزہ مزے سے بولی تو رانیہ کا دل کیا کہ اپنا سر دیوار پر مار لے یہ اسکے سر کو دیوار پر مارنے سے بہتر ہے کیونکہ اسکی زبان کو تالا کب لگا ہے۔

"مینے جب بابا کو بتایا کے عمر کو کوئی لڑکی پسند ہے تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ لڑکی انہیں پسند آئی تو وہ اس لڑکی کے ماں باپ سے بات کرنے میں ذرہ دیر نہیں کریں گیں اور ایسا ہی ہوا۔بابا نے اسی دن اس کے والدین سے بات کی۔"
وہ خوشی سے بولی تو مایا کی بےیقینی میں کچج لمحے کھڑی رہی وہ جاوید انکل کو جتنا جانتی تھی اس سے یہی اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ اتیہ جلدی یہ سب کچھ نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ وہ خود بھی اس لڑکی کو پہلے سے جانتے ہوں۔
" اللہ کی بندی بتاؤ تو کہ وہ کون ہے؟"
رانیہ اپنے اندر کی اٹھل پٹھل کو بامشکل لگام رگا کر بولی۔
"تم''
چونکہ رانیہ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور اگر وہ ابھی بھی نہ بتاتی تو علیزہ کو اپنی خیر منانی تھی۔ مگر اب یہ ایک لفظ اسکی پوری کائنات بدل گیا تھا وہ ساکن رہی کہ کہیں علیزہ ابھی یہ نہ کہہ دے کہ یہ مزاق تھا ۔ مایا نے اسے کندھے سے ہلایا جبکہ مایا خود بھی بےیقین تھی۔

''ہاں؟''

رانیہ خواب سی کی کیفیت میں بولی۔
"تم ہی ہو وہ لڑکی جوعمر جاوید کو بہت پہلے سے پسند ہے۔"

رانیہ کو لگا وہ مزاق کر رہی ہے کیونکہ علیزہ ایسے مزاق ہی کیا کرتی تھی جو دل طور جاتے تھے۔
"علیزہ ایسا مزاق مت کرو ۔۔۔پلیز۔"
وہ منٹ کرتی بولی۔
"میں مزاق نہیں کر رہی۔ تم فوزیہ باجی سے پوچھ لو۔ انہوں نے ابھی تو تمہیں مبارکباد دی تھی۔"
مایا کو بھی اب وجہ سمجھ آئی کے ان تینوں کو مبارکباد کیوں دی گئی تھی۔
"مطلب تم سچ کہ رہی ہو؟"
رانیہ امید کی چمک آنکھوں میں سجاتی بولی تو مایا کے ساتھ علیزہ کی آنکھیں بھی چمک اٹھیں ۔شاید یہ رانیہ کی آنکھوں کی چمک تھی جو اسکی آنکھوں میں سما نہیں رہی تھی اور ان کی آنکھوں میں سج گئی یا شااید اسکی آنکھوں کی اس کدر ثمک رہی تھیں کہ ان کی آنکھوں میں اپنا عکس چھوڑ سکتی تھیں۔
"رانیہ تمہیں بہت مبارک ہو۔"
مایا اسکو گلے لگا کر بولی۔
"تم لوگوں کو ؟''
رانیہ نے جب خیرت اور کھسیاتے ہوئے ادھورا سوال کیا تو وہ دونوں ہنس دی کیوں کہ اسکا سوال سمجھ گئی کہ انہیں اسکے دل کی بات کیسے پتہ ہے جو کہ اسنے کبھی ظاہر نہیں ہونے دی۔
"ہاں، ہمیشہ سے پتہ تھا۔تم ان سے ڈرتی ہو۔ان کے پاس بھی بٹکتی نہیں ہو اور انکے سامنے آ جانے پر تمہاری سانسیں ہی تھم جاتیں ہے ۔"
مایا کے بولنے کے بعد علیزہ اور مایا دونوں ایک دوسر کو دیکھ کر ہنس دہی وہ لمحات یاد کر کے جب ایسا ہوتا تھا اور یہ دونوں رانیہ کو دیکھ کر زیر لب ہنس رہی ہوتی تھی۔
"یار ایسا نہیں ہو سکتا۔"
وہ ماننے کو تیار نہ تھی کہ ایسا ہو چکا ہے۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ جو چیز اسنے کبھی اپنے خیال میں بھی تصور نہیں کی وہ ھقیقت میں ہق چکی ہے۔
"ایسا ہو چکا ہے۔چاہو تو عمر بھائی سے بات کروا کر فنفرم کروا دوں۔"
علیزہ اسکو تنگ کرتی بولی اور اسکا سانس جیسے حلق ہی میں اٹک گیا ہو۔
"نہیں انہیں میں بہت بڑی لگتی ہوں مجھے پتہ ہے۔"
وہ معصومیت سے سر نفی میں ہلاتی بولی اور اب علیزہ کو غصہ آنے لگا۔
"اللہ کرے تمہارا رزیلٹ ایسا آیے کہ کسی کو منہ دکھا نے کےقابل نہ رہو۔"
رانیہ غصے سے بولی کیوں کہ اسے علیزہ پر غصہ آیا کہ اسنے اسے یہ پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔
"شکریہ"
وہ اثر لیے بغیر بولی کبوں پر مسکراہٹ سجائے بولی تو رانیہ کو اچھی نہیں لگی۔
"مر جاؤ۔"
رانیہ اسکی مسکراہت سے چڑ کر بولی۔

"ویسے سنو جب مینے بابا کو بتایا تو انہوں نے بھائی کو بلوایا اور اس سے تمہارے بارے میں سوال کر کے کہ کنفرم کیا کہ کیا وہ واقعی تمہیں پسند کرتا ہے تو انکے تو طوطے ہی اڑ گئے تھے مگر وہ نہ اڑ سکے اور تمہیں پتہ ہے میں انکی باتیں سننے کیلیے اس بڑی والی کھڑکی میں چھپی تھی جس میں ہم بچپن میں کھیلتی وقت چھپا کرتے تھے۔ خیر اب ان کھڑکیؤں میں تمہارے بچے چپا کرے گیں۔"

اسکی بات ابھی مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ مایا اور علیزہ کا قہقہ کمرے میں گونجا تو رانیہ کو غصہ آیا۔

"بات کو مکمل کرنا ہے تو کرو مگر یہ بکواس نہ کرو۔"
رانیہ غصے سے بولی تو وہ دونوں پھر سے ہنس دی۔
"تو بابا نے اسکے طوطے اڑتے دیکھے تو انہیں نے اسے کہا کہ گھبراؤ نہیں اگر ایسی بات ہے تو بتا دے۔ وہ اسکی پسند کو ہی اہمیت دیں گیں۔ مگر اسکی جھجھک تھی کے ختم ہونے کو نہیں آرہی تھی۔"
علیزہ خفگی سے بولی۔
"پھر؟''
مایا چڑ کر بولی کہ وہ رکی کیوں ہے۔
"پھر بابا کے تسلیاں دینے کہ گیارہ منٹ اکیس سیکندز اور چند لماحات کے بعد شاید اسکو مجھ پر ہی رحم آیا ہوگا جو اسنے بابا کو بتا نے کہ زخمت کی کہ تم انکو بہت پہلے سے پسند ہو۔"
آخری جملے پر اب رانیہ کے طوطے اڑے تھے۔
"کیا؟ انہوں نے یہ کہا تھا؟"
اسے انکے کہنے پر نہیں بلکہ بابا کے سامنے ایساکہنے پر خیران ہوئی تھی اور سوچ میں ہر گئی کہ اب وہ انکا سامنا کیسے کرے گی۔
"میں اب تمہارے گھر نہیں جا رہی۔"
اس صاف انکار کا علیزہ کو پہلے سے پتہ تھا۔
"پلیز چلونا گھرپرصرف ماما ہیں۔"
وہ انکا سامنا بھی نہیں کر سکتی تھی۔بلکہ اب تو کسی حال میں نہیں کر سکتی تھی ۔
"نہیں میں نہیں جاؤں گی۔"
مایا کو بھی اب غصہ آیا۔
"یار وہ تمہیں نہیں کھائے گیں۔"
مایانے بھی کوشش کی کے وہ مان جائے مگر رانیہ سے کسی چید کی ضد کرنا اکثر بھینس کے آگے بین بجھانے جیسا ہوتا تھا۔
"اور اگر کھا گئیں تو؟"
وہ معصومیت سے انہیں دیکھتی بولی تو وہ دونوں اسکے معصوم چہرے کو دیکھ کر ہنس پری۔
"تو ہم نئی رانیہ لے آئیے گیں۔"
مایا اسکو تنگ کرتی بولی مگر وہ نظر انداز کر گئی۔
"مجھے گھر جانا ہے۔"
وہ اب تقریبا رو پرنے والے تھی۔
"اف! تم میرے گھر چلو گی۔بولا بھی تو ہے کہ کوئی گھر نہیں ہے سوائے ماما کے۔"
وہ غصے سے بولی تو رانیہ آگے سے کچھ بول نہ پائ۔

"ویسے مجھے عمر بھائی پر ترس آرہا ہے کہ ایک سنبھالی نہیں جاتی اور اب تو ایک اور پاگل ان کے سر پر سوار ہو جائے گی۔"
مایا اسکی گھبراہٹ دیکھ سکتی تھی اور اسنے اس گھبرہٹ کو تھوڑا اور بڑھانے کا سوچا اور ایسا ہی ہوا۔ مایا اسکا چہرہ دیکھ کر بتا سکتی تھی کہ آگے اور ایسا کچھ بولا تو وہ بچوں کی طرح رو پرے گی۔
" مجھے پتہ ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں کرتے۔"
وہ یہ کہہ کر رونے لگی تو علیزہ کندھے اچکا کر بولی۔
"وہ بھی یہی کہتے ہیں مگرمیری وجہ سے تم دونوں کی شادی طے ہوئی ہے اس پر انہوں نے مجھے اپنی نئی کار دے دی اور لنچ پر بھی لے کر گئے تھے۔"
ہاں یہ بات سچ تھی کہ جب علیزہ نے اسے کہا کہ وہ رانیہ کو پسند کرتا ہے تو اسنے یہی کہا کہ وہ اسکو پسند نہیں کرتا۔ علیزہ کو دوبارہ سوال کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ جس بات کو اسنے اول میں نہیں مانا ۔وہ بات وہ آخر میں بھی نہیں مانے گا مگر کون جانے کہ اس بات کا اقرار عمر جاوید سہی معنی میں اسی لڑکی سے کرنا چاہتا تھا جو اسکے دل میں تھی۔
"وہ مانتے نہیں ہے مگر انہوں نے انکل کو تو یہی کہا تھا نہ کہ وہ رانیہ کو پسند کرتے ہیں مطلب مانا ہے۔"
مایا بولی تو علیزہ کندھے اچکا گئ۔
"اوے! سیف کدھر ہے؟"
رانیہ کے دماغ میں یک دم خیال آیا کہ عمر نے آذب بھائ کو یہ بات ضرور بتائی ہوگی اور اس طر ح یہ بات سیف کو بھی ضرور معلوم ہو گی۔
"وہ؟ پتہ نہیں۔ ہاں یاد آیا ،اسے علی کے ساتھ کہیں جانا تھا۔ علی کے ساتھ کہیں گیا ہے۔"
مایا یاد آنے پر فورا سے بولی تو علیزہ کا منہ بن گیا اور اسکی وجہ وہ دونوں جانتی تھیں۔علی اور علیزہ کی جب بھی ملاقات ہوتی تو ایک دوسرے پر ایک جملہ ایسا ضرور چھوڑتے تھے جو دوسرے کو ٹڑہا جاتا تھا۔اسے اس وجہ سے علی کا ذکر ہونا بھی پسند نہ تھا۔
"منہ کیوں لٹکا لیا ہے وہ گھر نہیں آے گا۔"
مایا نے اسے اس لیے بتایا کیوں کہ اسے لگا کہ شاید اس لیے منہ لٹکا لیا ہے کہ آج علی سے ملاقات ہوگی۔
"مگر سیف اسکے ساتھ کیوں ہے؟۔کیا وہ اسکی حرکات سے واقف نہیں؟''
وہ خفگی سے بولی کیوں کہ سیف ،علی اور علیزہ سکول کے شروع سے اکٹھے تھے اور سیف نے ہمیشہ سے ہی علیزہ کی سائید ہی لی تھی مگر وہ علیزہ کے پیچھے علی ہی کی طرف ہوتا تھا جس کی خبر رانیہ اور مایا کو تو تھی مگرانہوں نے کبھی علیزہ کو نہیں بتایا۔
"مجھے جس دن وہ ملا ۔مینے اسکا کچھ نہیں چھوڑنا۔ اسنے بابا کو جو کہا تھا ابھی اسکا حساب اسنے نہیں دیا۔"
علیزہ کو وہ دن یاد آیا جب یہ جاوید انکل کے ساتھ کہیں باہر تھی اور یہ بھی وہی تھا۔چونکہ وہ بچپن سے اسکا کلاس فیلو تھا اس لیے جاوید اور وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے ۔تو اسنے علیزہ کی شکایت لگائی کہ اگر یہ لوگ کبھی کہیں مل جاتے ہیں تو علیزہ اس سے بدتمیزی کرتی ہے ۔خیر جاوید انکل نے علیزہ کو کچھ نہیں کہا تھا کیونکہ وہ ان دونوں سے ہی واقف تھے۔مگر اس وقت جاتے ہوئے جو مسکراہٹ وہ اس پر اجھال کر گیا تھا ،علیزہ کو وہ لٹانی تھی۔
"ارے مایا تمہارے بات جو تم نے کرنی تھی وہ تو رہ گئی ہے۔"
رانیہ کا دل نہیں تھا کہ علی کے بارے میں کوئی بات ہو اور اسے یاد آیا کے مایا نے کوئی بات کرنی تھی۔
"ہم وہ باہر جا کر ہی کریں گیں۔"
مایا جملہ ادا کرتے کرتے اٹکی کیونکہ اسکے ذہن میں وہ شخص جو آگیا تھا۔
وہ نکلے تو عزیز لاؤنچ میں تھے اور انہیں جاتے جاتے یہ حکم بھی مل گیا کہ کامران کو ڈراور کے طور پر ساتھ لے کر جائیں اور وہ نہ بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔ اس وجہ سے منہ لٹکائے باہر آئیں اور دل میں دعا کا تسلسل جاری تھا کہ کامران بھائی کو کوئی کام ہو جس کی وجہ سے وہ نہ جا پائے۔
کامران بھائی انہیں لان میں دکھ گیے۔وہ لان لی کیارہوں میں نئے پودے لگا رہے تھے۔
کامران بھائی۔
انہوں نے انہیں دور سے کھڑے کھڑے ہی آواز دی۔
"جی؟"
وہ ان کی آواز پر پلٹے اور انہیں دیکھ کر سمجھ گئے کہ انہیں کہیں جانا ہے تو فورا سب سمیٹ کر انکی طرف آئے۔
"ہمیں کہیں جانا ہے۔آپ فارغ ہیں؟"
انہیں ان تینوں کی اتری ہوئی صورت بتا رہی تھی کہ وہ چاہتی ہیں کہ وہ نا کہیں مگر وہ ایسا ہر گزر نہیں کہہ سکتے تھے۔
"اچھا ٹھیک ہے۔"
وہ کچھ سوچ کر بولے۔
"ویسے اگر اپکو کوئی کام ہے تو ہم خود بھی جا سکتے ہیں۔ہم بابا کو کہہ دیں گیں کہ آپکو کوئی کام تھا۔"
علیزہ فورا سے بولی تو انہیں یاد آیا کہ انہیں فوزیہ اور دانیہ کو کسی کام سے کہیں لے کر جانا تھا۔
"دانیہ اور فوزیہ نے کہیں جانا تھا انہی کہ ساتھ جانا تھا۔مگر۔۔۔"
انکا جملہ مکمل ہوتا اس سے پہلے ہی علیزہ فورا سے بول اٹھی۔
"تو آپ ایسا کریں کہ ہمیں ریسٹورینٹ تک چھوڑ آئیں۔باقی پھر میں حسن بھائی کو بلوا لوں گی۔"
حسن علیزہ کےگھر کا ڈور تھا اورمعلومات میں اضافے کے لیے یہ کہ علیزہ جھوٹ بول رہی تھی۔۔یہ سب جانتے تھے۔
"مگر حسن تو کہیں گیا ہوا ہے۔"
وہ بھویں اچکاتے بولے۔
"یا اللہ انہیں کیسے پتہ۔ ۔ ۔ ۔"
علیزہ بڑبڑائ تواسے ساتھ ہی یاد آیا کہ کامران بھائ حسن کے دوست ہیں اور اسنے زبان دانتوں تلے دبائی کہ وہ کیسے بھول گئی تھی یہ بات اور کھسیاں کر بھائی کو دیکھا جو اسکے کسی اور بہانے کا نتظار کر رہے تھے کہ اسکی بھی کوشش کر لے کیونکہ جب مایا جا رہی ہے تو انہوں نے جانا تو تھا۔
اب علیزہ کے پاس بولنے کو کچھ نہ تھا تو کامران بھائی چلنے کا پوچھنے لگے۔
"چلیں؟''
"جی۔"
مایا زیر لب ہنستی ہوئی بولی اور تینوں کامران بھائی کے پیچھے گاڑی کی ظرف جانے لگیں۔

کافی دیر بعد وہ تینوں فلورہ رسٹورنٹ میں موجود تھیں۔ وہ بالکنی مین بیٹھی تھیں جہاں وہ ہمیشہ سے بیٹھتیں تھی مگر وہاں کمزور دل والے نہیں بیٹھ سکتے تھے کیونکہ یہ رسٹورینٹ پہاڑی کی اونچائی پر تعمیر کیا گیا تھااور بالکونی میں بیٹھنے سے گہرائی کا منظر دکھائی دیتا تھا جس کو دیکھ کر لوگ کم ہی ادھر بیٹھنے کا رسک لیتے تھے۔
چونکہ ابھی بھی اتنا وقت نہیں ہوا تھا ۔ابھی بھی صبح تھی تو صبح صبح کی ٹھنڈی ہوا اور منظر جسے اکثر لوگ خواب ہی دیکھ پاتے اوور جی پاتے ہیں ،وہ تینوں حقیقت میں جی رہی تھیں اور اپنے رب کی شکر گزار بھی تھیں۔
تینوں کے ذہن میں ایک ہی آیت چل رہی تھی۔
سورہ رھمان کی ایت۔
وہ کچھ دیر خاموشی سے اس منظر کو دیکھتی رہیں۔
"چلو اب بتاؤ مایا کہ تم کیا بات کرنا چاہ رہی تھی۔"
رانیہ اسکی طرف متوجہ ہوتی بولی۔
"میں کیسے بتاؤں میرے ذہن میں شروع کرنے کیلیے اتنے شوشے ہیں اور اب ایک اور شوشہ مل گیا ہے۔"
وہ الجھی ہوئی بولی۔
"تو اس نئے شوشے سے شروع کر لو۔"
علیزہ نے جٹ سے اسکی الجھن کا حل نکالا۔
مایا نے گہرے سانس لی۔
"اچھا ٹھیک ہے ۔مگر تم لوگ پہلے میری بات کو دھیان سے سنو گی۔"
وہ جانتی تھی کہ وہ آید کا نام سنتے ہی اپنی بولنے لگ پریں گیں اور اسکو بات مکمل کرنے ہی نہیں دیں گیں۔
"ہاہاہا۔وہ کئے بغیر تو ہم رہ نہیں سکتے۔"
علیزہ بتیسی نکالتی بولی اور رانیہ نے اسکی تائید کرتے سر اثبات میں ہلادیا اور مایا افسوس سے گہری سانس ہی لے سکی کہ کاش ان میں سنجیدگی کے وقت سنجیدہ ہونے کی صلاحیت پائی جاتی۔ وہ جانتی تھی کہ ان میں یہ ہے مگر مایا کے نصیب ایسے ہی تھے کہ اس کے معاملے میں ان دونوں کے پاس عقل کا عنصر بھی نہ تھا۔
"اچھا!اب میری سن لو۔۔۔وہ جو آدمی ہے۔جس کا دانیہ نے بتایا ہے۔۔۔"
"آید سلیمان؟"
رانیہ نے الجھن سے اسے دیکھتے ہوئے کہا کیونکہ اسے سمجھ نہ آئی کہ مایا نے اسکے بارے میں کیا بات کرنی ہے۔
"ہاں وہی۔۔۔"
مایا کی ہمت نجانے کیوں جواب دے گئی تھی کہ وہ جملہ مکمل نہ بول پائی۔
"اس کے بارے میں۔۔؟''
علیزہ کو بھی سمجھ نہ آئی۔
"دراصل مجھے وہ ملا تھا۔ میرا مطلب۔۔۔۔"
اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی علیزہ بول اٹھی۔
"کب اور کیسے؟بلکہ کہاں؟ اور تم نے ہمیں کیوں نہیں بتایا؟"
اسنے اپنی بےصبری کا مظا ہرہ کر ہی دیا اور ایک ہی سانس میں اتنے سوال کر دیے۔
"اف کیا ہو گیا ہے؟ اب میں تمہیں فوزیہ باجی اور دانیہ کے سامنے بتاتی کہ 'ارے ہاں میں تو اس آدمی سے پہلے مل چکی ہوں'۔ویسے ملی نہیں ٹکڑائی تھی۔"
وہ اس کے ذکر کرنے پر گھبراہٹ محسوس کر رہی تھی کہ کہیں کوئی راز افشاں نہ ہو جائے۔مگر بات اتنی ہے ہی نہیں تھی کہ اسکا ذکر کرتے ہوئے گھبرایا جائے اور یہی سوچ کر تو علیزہ اور رانیہ نے اسے خیرت سے اسے دیکھا کہ وہ تو ایسے اٹک اٹک کر بتا رہی تھی کہ اسکا قتل کر آئی ہو۔ مگر پھر علیزہ کو اس پر رشک آیا کہ وہ آید سلیمان کو حقیقتا دیکھ پائی ہے۔
"کاش میں وہاں ہوتی؟"
علیزہ مایوسی سے بولی۔
"تو پھر کاش تمہارے ساتھ عمر بھائی بھی وہاں ہوتے۔"
مایا جواب میں فورا سے بولی۔
"ویسے تم نے اسے دیکھا کہاں تھا۔"
رانیہ نے کچھ سوچتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"میں زینب کے ساتھ یونی گئی تھی وہی پر وہ بھی تھا۔"
"تو تم اس سے ٹکڑائ کیسے؟"
علیزہ نے پر سوچ انداز میں سوال کیا۔
"میں بھاگ رہی تھی اور اچانک سے اس سے ٹکرا گئی۔"
مایا کی نظروں کے سامنے اسکی سردمہر آنکھیں آئی اور جیسے وہ ٹھنڈ کی شدت سے کانپی ہو مگر اسی کے ساتھ گرمی کا ولولہ بھی کچھ کم نہ تھا ۔ یہ اس شخص سے پوچھا جائے جو عرب کے سفر کو پیدل چل پڑے اور پھر اس انجانے سے شخص کی آنکھوں میں دیکھے تو اگر اس سے پوچھے کہ آگ کدھر تھی تو وہ سوچ میں پر جائے گا کہ آگ عرب کے صحرا میں تھی یا ماضی کی ڈھول کے پیچھے کے منظر میں تھی۔
"تم بھاگ کیوں رہی تھی؟ کوئی اگواکار پیچھے پرگیا تھا کیا؟''
علیزہ ہنستے ہوئے بولی۔
"اس سےبھی بڑی بلاپیچھے پڑی ہوئ تھی۔"
وہ کندھے اچکا کر بولی تو دونوں سمجھ گئیں اور زور سے ہنس دیں۔
"کیوں؟ تم نے ایسا کیا کر دیا تھا؟"
مایا کو غصہ کہ وہ دونوں اسکی دوست ہو کر بھی سیف کی طرف ہیں ،اسی لیے تو یہ سوال کیا تھا۔
جبکہ ایسا کچھ نہ تھا، علیزہ جب محسوس ہوا کہ وہ سیف کے حق میں بولی ہے تو اسے اپنے پر غصہ آیا۔
"اللہ اس بندر کو عقل عطا فرمائے میری تو یہی آخری خواہش ہوگی۔"
رانیہ بولی تو مایا کے چہرے پر مسکراہت آ گئی مگر پھر اسے سیف کا شرمندہ چہرہ یاد آیا۔
"نہیں وہ کافی شرمندہ تھا۔"
وہ فورا سے بولی۔
"اچھی بات ہے۔ویسے بتاؤ آید نے کیا کیا پھر؟''
علیزہ سیف کی تعریف کو نظر انداز کرتی بولی تو مایا کو غصہ آیا مگر کچھ بولی نہیں۔
"نہ پوچھو۔۔۔۔''
وہ دونوں اسکے چہرے کو دیکھ کر اسکے خلق کے کروے ہونے کا اندازہ لگا سکتے تھے۔
"کیوں تمہیں جاڑھ تو نہیں گیا تھا ۔مینے سنا ہے کہ وہ بہت ایروگینٹ ہے۔"'
رانیہ اسکے چہرے کو غور سے دیکھتی بولی کیوں کہ اسے مایا کہ چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ شاید صحیح بولی ہے۔
"نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا۔یاروہ۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔میں کیسے بتاؤں ؟۔۔یار اسکو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے اسنے بھی اپنی زندگی میں کچھ ایسا گزارہ ہے جس کے نشاں اسکی ذات میں ابھی بھی بستے ہیں۔"
مایا اٹکتی ہوئی بولی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ علیزہ اور رانیہ اسکی بات کو سمجھ نہیں پائیں گیں اور اسے اس سے زیادہ سمجھنا نہیں آتا تھا یا وہ سمجھانا نہیں چاہ رہی تھی۔
"مایا تم کہنا کیا چاہ رہی ہو؟"
علیزہ نے اسکی بات کو سمجھنے کی کشش کی مگر وہ صحیح سے سمجھ نہ پائی تھی۔
"جیسے میری زندگی کا سب سے بڑا دن میرے لیے بھولنا بہت مشکل ہے مگر آج مجھے وہ یادیں اس طرح تنگ نہیں کرتیں جس طرح پہلے کیا کرتی تھیں۔وہ شرمندگی۔۔۔،افسوس،خوف،ڈر ۔۔۔وہ آج بھی میرے اندر ہے مگرمحبت اور پیار ان سب کو ہرا دیتی ہے۔"
وہ شرمندہ نظروں سے اپنے ہاتھوں کو دیکھتی بولی تو ایک لمحے کےلیے ان دونوں نے شکوہ کن نظروں سے اسے دیکھا کہ آج بھی وہ ایسا کیوں سوچتی ہے مگر انہیں پھر یاد آیا کہ عمر اور آضب بھائی نے انہیں سمجھایا تھا کہ وہ اس دن کو خود ہی زندگی کے آگے بھرنے کے ساتھ بھول جائے گی اور اپنے آپ کوبےقصور بھی جان جائے گی۔
مگر ان دونوں کو یہ سمجھ نہ آیا کہ وہ یہ سب آید کی بات کرتے کرتے کیوں کہنے لگی ہے۔
"مگر تم یہ سب کیوں کہہ رہی ہو؟''
رانیہ نے اسے ناسمجھی سے دیکھتی ہوئے کہا۔
"مجھے لگتا ہے کہ اسکی زندگی میں بھی کچھ ایسا ضرور ہے۔"
وہ کندھے اچکا کر بولی۔
"نہیں مجھے نہیں لگتا میرے خیال سے اسے اپنی دولت کا تکبر ہے اسی لیے تو مغرور بھی جانا جاتا ہےاور کسی سے کھی گلا ملا بھی نہیں ہے۔"
مایا رانیہ کی بات سے متفک بلکل نہیں تھی۔وہ انہیں بتانا چاہتی تھی کہ اسنے ان آنکھوں میں ایک مفلس دیکھا تھا جو سکوں سے محروم تھا۔وہ محبت کو دھونڈ رہا تھا۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اسکی بات کو نہیں سمجھے گی۔ وہ ایک بار پھر سے کانپی تھی شاید سردی سے یا شاید سرد مہری سے۔۔
مایا نے گہرے سانس لی۔
"مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایسا ہے۔"
مایا مضبوط انداز میں بولی۔
"کیوں؟ تم اس کے بارے میں اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو؟"
علیزہ اور رانیہ ایک آواز میں بولی اور دونوں بھویں اچکا کر جواب کےلیے اسے منتظر نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
"میری اس سے بات ہوئی تھی۔''
وہ ٹھنڈی آہ لے کر بولی۔
"کب؟''
"کیسے؟''
دونوں کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔
"انسٹا پر۔۔۔"
ان دونوں نے خیرت سےایک دوسرے کو دیکھا اور پھر اسے۔
"تمہارہ انسٹا اکاؤنٹ بھی ہے اور تم نے ہمیں بتا بھی نہیں۔"
علیزہ اپنی ڈرامائی آواز مین بولی تو مایا ذرا کھسیا گئی۔
"نہیں میرا نہیں۔زینب کا اکاؤنٹ تھا۔مینے اس سے کچھ عرسے کے لیے لے لیا ہے۔"
مایا فورا بولی۔
"تو بتاؤ پھر کیا بات ہوئی۔۔''
علیزہ سامنے پہاڑوں کو دیکھتی بولی۔
"کچھ خاص نہیں۔ہم نے عام سی باتیں کی تھیں۔وہ کافی نرم مزاج کا لگ رہا تھا۔مگر جب میں نے اسے دیکھا تو ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ایسے جیسے نرمی کا میم بھی اس سے کوسوں دور رہتا ہو۔"
مایا کندھے اچکا کر بولی تو رانیہ نے اسکا کندھا تھپھپایا ۔مایا نے اسکی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہی تھی ۔اس مسکراہٹ کی وجہ علیزہ اور مایا باخوبی سمجھتی تھیں۔
"مایا دراصل تم گہرا سوچتی ہو اور اگر اسکی زندگی میں ایسا کچھ ہوا بھی ہے تو ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔مگر تمہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ آزاد کشمیر انڈیا کہ پاس جا رہا ہو۔"
علیزہ بولی تو وہ مسکرا دی۔ اسے پتہ تھا کہ جس راہ پر وہ ان دونوں کو لے جانا چاہتی ہے وہ دونوں اس راہ سے الٹ راہ ہی کو اپنائے گیں۔
میں تو بس ویسے ہی بول رہی تھی۔"
اس نے ان دونوں کی خواہش پوری کر دی۔
"تم دوبارہ اس سے کہا ں ملی تھی ؟"
رانیہ کو اس کے انداز سے لگا تھا کہ وہ صرف ایک دفعہ نہیں ملی۔
رانیہ نے ہاتھوں کو سردی کی وجہ سے آپس میں ملتے ہوئے پوچھا۔
"ان پہاڑوں میں۔۔۔۔"
مایا نے سامنے پہاڑوں کے دایئں طرف اشارہ کیا تو دونوں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
"میں ملی نہیں تھی۔صرف دیکھا تھا اسے وہاں۔"
"کیا مطلب؟۔۔۔۔ان پہاڑوں کے پچھلی طرف؟"
رانیہ اور علیزہ کو یقین نہ آیا۔
مایا نے سر اثبات میں ہلایا۔
"مگر وہاں تو کوئی بھی اتنا خاص نہیں جاتا۔تم کہاں سے چلی گئی وہاں۔۔"
علیزہ ہکابکا اسے دیکھتی بولی۔اسے ابھی بھی یقین نہیں آیا تھاکیوں کہ وہ جانتی تھی کہ وہاں جانے کی اجازت مایا کو مل ہی نہیں سکتی تھی ۔
"میں۔۔۔۔دراصل بغیر بتائے چلی گئی تھی۔''
مایا ذرا کھسیا کر بولی۔
"کیا؟کسی کو پتہ نہیں چلا کہ تم کہاں ہو؟"
رانیہ تقریبا چیخی تھی۔
"اور تم وہاں گئی کیسے تھی؟''
علیزہ کا بھی وہی حال تھا۔
"پتہ چل گیا تھا اور سب مجھ پر بہت غصہ بھی ہوئے تھے۔"
" ان کو پتہ کیسے چلا ؟۔"
رانیہ نے ہاتھوں کو ذور سے ملتے ہوئے سوال کیا۔
"پتہ نہیں۔ مگر بابا کو اس بات کا نہیں پتہ۔تم لوگ بھی کسی کو نہ بتانا یہ نہ ہو کہ بابا تک بات چلی جائے۔"
"بےفکر رہو۔"
رانیہ سر کو اثبات میں ہلاتی بولی۔
"کاش میں اس وقت تمہارے ساتھ ہوتی۔"
علیزہ منہ بنا کر بولی تو مایا ہنس دی۔
"ویسے اگر تم لوگ چاہو تو ہم جا سکتے ہیں۔''
مایا رانیہ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں کے ساتھ ملتی بولی کیوں کہ اسکے ہاتھ بہت زیادہ ٹھندے پر گئے تھے۔
"سچی"
علیزہ کی بری بری آنکھیں یہ سن کر اور بڑی ہو گئیں۔
"ہاں مگر اکیلے نہیں۔ہم سیف کو ساتھ لے کر جائے گیں۔"
یہ سن کر رانیہ ہنس پری کیوں کہ جانتی تھی کہ علیزہ کو یہ منظور نہیں ہوگا۔
"کیوں؟''
علیزہ سینے پر ہاتھ بھاندتی اور دائیں بھویں اچکا کر بولی۔
"کیوں کہ آضب بھائی نے مجھے وارن کیا تھا کہ اگر دوبارہ غلطی ہوئی تو وہ بابا کو بتا دیں گیں۔"
علیزہ کچھ بول نہ پائی اور اسکا منہ اور زیادہ پھول گیا۔
"ویسے اچھا نہیں کہ وہ ساتھ جا رہا ہے اسکی فوٹوگرافی کمال کی ہے۔ اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے ۔"
مایا نے علیزہ کا موڈ اچھا کرنے کے لیے بولا اور یہ بات سچ تھی کہ سیف اور علی فوٹوگرافی کمال کی کرتے تھے۔
"اس بار نہیں نہ ہر بار اسکو ساتھ لے جانا پڑتا ہے ۔"
علیزہ بچے کی طرح منہ بناتی بولی۔
وہ پہلے بھی جہاں اکیلے نہیں جا سکتی تھیں، سیف کو لے جاتی تھیں اور سیف مجبورا ان کے ساتھ چلا جاتا کیوں کہ جانتا تھا کہ اگر منع کیا تو یہ چھپ کر چلی جائیں گیں۔
مایا نے اسکو آنکھیں نکالی اور علیزہ خاموش ہو گئی کیونکہ جانتی تھی کہ اسنے خود ہی فضول بات کہی ہے۔
"ویسے آید وہاں کیا کر رہا تھا؟''
رانیہ کے دماغ میں سوال آیا تو اس نے کر دیا۔
"پتہ نہیں یا شاید پتہ ہے۔"
مایا نے نہ کہا کیوں کہ اسے کیسے پتہ ہو سکتا ہے کہ وہ کیا کرنے آیا ہے مگر پھر اسے اسکا مسلسل بے چینی سے ہلتا وجود یاد آیا تو اسنے کہہ دیا کہ پتہ ہے۔
"مطلب؟''
وہ دونوں ایک ساتھ اسے ناسمجھی سے دیکھتی ہوئے بولیں۔
"وہ کافی بےچین سا لگ رہا تھا ۔ہو سکتا ہے کہ اکیلے وقت گزارنے آیا ہو۔ویسے بھی اکیلے وقت گزارنے کےلیے وہ ایک اچھی جگہ ہے۔"
"ہمم۔۔۔مگر ایک بات کہوں گی کہ تم اسکے بارے میں زیادہ سوچ رہی ہو۔"
علیزہ ڈوٹوک بولی کیوں کہ اسنے اسے ایک یقینی بات بتائی تھی جس میں کوئی شک و شعبہ نہیں تھا اور نہ ہی بخث کہ گنجایش۔
"نہیں ایسی بات نہیں ہے۔۔۔۔"
مایا فورا سے ہڑبڑاتی ہوئی بولی جب کہ رانیہ بھی علیزہ کی بات سے متفق تھی۔
وہ دونوں کچھ بولتیں اس سے پہلے ہی مایا کہ ذ ہن میں کچھ آیا اور اسنے بول دیا۔
"یار میں نے اسے ایک جھوٹ بولا ہے۔"
"کیا؟''
ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور مایا سے یک انداز میں پوچھا۔
"کہ میں مایا نہیں زینب ہوں۔مایا میری چھوٹی بہن ہےوغیرہ وغیرہ۔۔۔۔"
"تو کیا ہوا؟ حقیقت بتا نا ضروری تو نہیں تھا۔جس کی آی۔دی سے بات کر رہی تھی اس نے بھی تو یہی سوچنا ہے کہ زینب ہی ہے۔"
علیزہ پرسکون لہجے میں بولی جب کہ مایا کو ڈر تھا کہ کہیں اسکا جھوٹ پکڑا نہ جائے ۔
"مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ بات کرتے کرتے مینے یہ کہہ دیا۔"
"فکر کیوں کر رہی ہو؟ وہ کون سا ایک دن تمہارے دروازے پر آکر تم سے حساب مانگے گا کہ مجھے حساب دو کہ تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا تھا۔"
رانیہ ہنستے ہوئے بولی۔
"ہاں یہ تو ہے۔"
مایا نے اپنے آپکو بھی پرسکون کیا۔
"ویسے اس نے بھی مجھ سے ایک جھوٹ بولا ہے۔"
مایا کو یاد آیا کہ ٹرپ والی بات اسنے اس سے جھوٹ بولی تھی۔
"کیا؟ اور تمہیں کیسے پتہ کے اسنے تم سے جھوٹ بولا ہے؟''
علیزہ نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"یونی کی ٹرپ جا رہی ہے اور وہ اسی کے کسی پروگرام کی وجہ سے ہے مگر اسنے ایسا کچھ نہیں بتایا بلکہ یہ کہا کہ اس بارے میں اسے اسکے کسی کزن نے بتایا ہے ۔"
"اسنے جھوٹ کیوں بولا؟''
رانیہ ٹھوری تلے ہاتھ کو رکھتی بولی۔
"یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔"
مایا کندھے اچکاتی بولی۔
"چلو چھوڑو اس بات کو۔"
رانیہ نے بات ہی ختم کر دی۔
"میں بھائی کو کال کر دیتی ہوں کہ ہمیں لینے آ جائیں۔"
علیزہ ان دونوں سے بےنیاز مبائل اٹھا کر ذرا فاصلے پر کال کرنے چلی گئی کیوں کہ جانتی تھی کہ رانیہ نے ایسا کرنے نہیں دینا۔ اور رانیہ نے اسے پریشانی سے دیکھا کہ وہ تو کہ رہی تھی کہ وہ گھر نہیں ہے۔رانیہ کو غصہ آگیا۔
"جھوٹی عورت۔"
وہ زیر لب بربرائی تو ماما سن کر ہنس دی۔
علیزہ واپس آ کر بیٹھی تو اسکے لبوں پر مسکراہٹ جھلک آئی جسے وہ چھپانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔
"ہم خود بھی تو جا سکتے ہیں نا۔"
رانیہ بیچارگی سے بولی۔
"اگر بھائی کو پتہ چلاکہ ہم اکیلے آئیں ہیں تو وہ غصہ کرے گیں۔اس لیے میں نے انہیں کال کر دی۔"
وہ معصومیت سے اسے دیکھتی بولی۔
"شٹ اپ"
رانیہ خفگی سے بولی تو وہ دونوں ہنس دیں۔
"اس میں دیکھو تمہارا بھی تو فایدہ ہے۔"
رانیہ کو اسکی بات کا مطلب سمجھ نہ آیا مگر مایا کا اونچا قہقہہ اسے سمجھا گیا کہ اس کے فضول سے جملے کا کوئی فضول مطلب ہی ہے۔
"اگر ایک اور دفعہ بکواس کہ تو میں تمہیں بتا رہی ہوں کہ میں تمہیں کچا کھا جاؤں گی۔"
رانیہ اسکو کسی جنگلی بلی کی طرح دیکھتی بولی۔
"بھابھی کے نند پر ظلم ابھی سے شروع۔۔۔"
مایا ہنستے ہوئے بولی۔
"جی نہیں۔ جملہ درست فرمائیے۔ بھابھی پر نند کے ظلم۔"
رانیہ نے دانٹ پیستے ہوے اسکے جملے کہ اصلح کی۔
"اہ! تو تمہیں لگتا ہے کہ میں تم پر ظلم کروں گی؟''
علیزہ نے ہنستے ہوئے سوال کیا تو رانیہ نے اسے آنکھیں سکیڑ کر دیکھا۔
"جی بلکل تم ایسا ہی کرو گی۔"
مایا نے بولا تو علیزہ ہکابکا رہ گئی کہ اسکی دوستیں اسکے بارے میں کیا سوچتی ہیں جب کہ ایسا کچھ نہ تھا وہ اسے تنگ کر رہی تھی۔
"تم دونوں میرے بارے میں ایسے سوچ رکھتی ہو؟''
علیزہ نے روہانسا ہو کر پوچھا تو رانیہ نے پہاڑوں سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔
"شاید۔"
رانیہ نے اسکو تنگ کرنے کی نیت سے ایسا کہا تھا۔
"ہائے! یار تم دونوں تو اکٹھی ہو جاؤ گی اور میں اکیلی رہ جاؤں گی۔"
مایا اداس ہو کر بولی۔
"فکر نہ کرو تمہارے لیے بھی کوئی جوڑ نکال لے گیں۔"
علیزہ آنکھ دبا کر بولی تو رانیہ ہنس دی جبکہ یہ سن کر مایا کا خلق تک کڑوا ہو گیا۔
"بکواس بند کرو میرا وہ مطلب نہیں تھا۔"
"میں بھائی کو کال کر لوں۔''
علیزہ موبائل اٹھاتی بولی تو مایا اور رانیہ نے اسے نا سمجھی سے دیکھا۔
"بھائی کا نمبر مصروف آ رہا تھا۔"
وہ ان دونوں کی نظروں کا مطلب سمجھ کر بولی۔
وہ دونوں کچھ بولتی اس سے پہلے ہی کال اٹھا لی گئی تھی۔
"اسلام وعلیکم۔"
عمر نے کال اٹھاتے ہی سلام کیا۔
"وعلیکم اسلام۔''
"جلدی بولو کیا کام ہے؟"
وہ اکتا کر بولا۔شاید مصروف تھا۔اس کی آواز پر علیزہ اور مایا ہنس دی اور رانیہ کی خیرت سے آنکھیں بڑی ہو گئ یا کہیں خوف سے۔
"بڑے ہی احسان فراموش ہیں آپ۔"
علیزہ اسکو تنگ کرتی بولی۔
" ہاں ہوں ۔آگے بولو۔"
وہ مصروف انداز میں بولا۔وہ کال کاٹ نہیں سکتا تھا کیوں کہ جانتا تھا کہ اسنے کسی کام سے ہی کال کی ہے ۔
"ہمیں لینے آ جائیں۔ہم فلورہ رسٹورنٹ پر ہیں۔"
ہم سن کر عمر نے آنکھیں مینچیں۔کیونکہ علیزہ نے ہم پر زور دیا تھا اور وہ مطلب سمجھ گیا کہ وہ کس کے ساتھ ہے۔وہ جانتا تھا کہ اسنے یہ جان بھوجھ کر کیا ہے مگر وہ مٹھیاں ہی بھینچ سکتا تھا۔
"اور کہا ہو سکتی ہو تم؟''
وہ بیزار سے انداز میں بولا۔
"جی تو پھر جلدی سے آ جائیں۔ہم آپکا انتظار کر رہے ہیں۔"
"اچھا میں آ رہا ہوں۔"
"واہ! مان بھی گئے۔اب تو جیسے وہ دن پرانے وہ گئے ہیں جب میں آپکو کہتی تھی کہ لینے آیئں اور آپ بغیر منتوں کے مانتے ہی نہیں تھے۔"
اسکی بات سن کر مایا کا فضا میں قہقہہ گونجا جو عمر نے بھی سنا تھا اور رانیہ بس اپنی جگہ پر بیٹھی اسے آگے ایسی بکواس نہ کرنے کا اشارہ کر رہی تھی کہ ورنہ وہ اسکا انجام خود ہی سوچ لے۔ مایا کو ان نودوں کو دیکھ کر بھی بہت ہنسی آ رہی تھی۔
"زیادہ بکواس نہ کرو۔"
وہ اسکی بات کا مطلب سمجھ گیا تھا اور کال بند کر دی اسے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتی۔
تقریبا پندرا منٹ میں وہ ادھر پہنچ گیا اور انکو کال کرکے باہر بلایا۔
علیزہ ہمیشہ کی طرح آگے بیٹھی اور وہ دونوں پیچھے۔مایا اور علیزہ مسلسل ان دونوں کی نظروں کو دیکھتے رہے کہ ان دونوں نے کبھی بھی ایک دوسرے کی طرف نظریں نہ اٹھائیں تھیں۔مایا کو ان کی حیاء و نگاہ بہت خوبصورت لگی تھی کہ اسکے جسم میں سنسناہٹ کی ایک لہر دوڑی اور وہ سر جھٹک کر باہر دیکھنے لگی جبکہ علیزہ مایا کو دیکھتی رہی جیسے ہمیشہ سے دیکھتی آ رہی تھی۔ وہ اسکو دیکھتے ہی اسکی سوچ کو پڑھ لیا کرتی تھی۔ عمر نے اسکو ایسا کرتے ہوئے پکڑلیا تو ناسمجھی سے اسے دیکھا۔ کیونکہ اسے سمجھ نہ آئی تھی کہ علیزہ کی آنکھیں نم کیوں ہیں اور مایا کو اتنی الگ نظروں سے کیوں دیکھ رہی تھی؟ علیزہ مسکرا دی اور سر نفی میں ہلا کر باہر دیکھنے لگی۔
وہ گھر پہنچے تو عمر کے گاڑی پارک کرنے کے دوران بھی وہ تینوں وہیں کھڑی رہیں۔ وہ گاڑی سے نکلا اور انہیں نظر انداز کرتا اندر چلا گیا۔ یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آ رہا تھا مگر آج اس میں کچھ مختلف تھا ،یہ ان تینوں نے محسوس کیا تھا۔ آج اس کے نظرانداز کرنے میں روکھاپن بھی موجود تھا۔ مگر وہ تینوں اپنی اپنی سوچ کو نظر انداز کرتی خود بھی اندر چلی گئیں۔
.................................................................

پڑھ لیا؟
اچھا لگا؟ اپریسیئشن کےلیے ووٹ کر دیجئگا۔می ذرا حساب لگاؤ کہ کیا کارکردگی ہے میری 😁

اچھی باتیں..... 👇
بعض علماء کا قول ہے کہ دنیا کی کسی چیز کے ضائع ہونے پر رنج و غم کا بھی بندے سے حساب ہوگا اور کوئی چیز ملنے پر دنیا میں ہونے والی خوشی و مسرت پر بھی محاسبہ ہو گا

حضورﷺ نے فرمایا:"جس نے دنیا سے محبت کی اور اسی میں خوش رہاتو اسکے دل سے آخرت کا خوف جاتا رہا۔"

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen2U.Pro