6.مجھے رات کا اندھیرا نہیں پسند جب دن کی روشنی ہو دستاب.....

Màu nền
Font chữ
Font size
Chiều cao dòng

اسلام علیکم.......🙂
🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃اُمید ہے کہ آپ خریت سے ہوں گیں۔🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃🍃
.................................................................
وہ سوچ رہی تھی کہ وہ آید کو میسیج کرے یا نہ کرے کیونکہ اسکا سوچنا  تھا کہ کہیں  وہ اسکو  غلط  نہ سمجھے۔ وہ اسکے  بات کرنے  کی  وجہ سے ایسا  ہر گز نہیں سوچ رہی تھی بلکہ جو کچھ اُسنے آید کے بارے میں سنا تھا اور جیسا اسکو دیکھا تھا اس وجہ سے سوچ  رہی تھی۔
اسنے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔اسکی ہمت نہ ہوئ اور نہ اسکو کوئ ٹھوس وجہ ملی کہ وہ اسے میسج کرے۔
وہ صبح فجر پڑھ کر سو گئی۔ پھر بعد میں اُٹھ کر ناشتہ کیا تو اسے  یاد آیا  کہ  سیف اس سے ناراض ہے۔ اسنے فورا سے موبائل چیک کیا کہ کہیں اسکا کوئی میسج یا کال نہ آئی ہو۔ مگر ایسا کچھ نہ تھا ۔وہ مایوس سی ہو کر وہاں سے اُٹھ کر کمرے میں واپس چلی گئی۔ پھر  وہ فریش ہونے کےلیے نہانے چلی گئی۔ واپس آئ تو اسکا موبائل بجنے لگا۔ اسنے فورا بیڈ پر سے اپنا موبائل اٹھایا  تو   جو نام  سکڑین پر جگمگا رہا تھا اسے دیکھ کر مایا کو بےانتہا خوشی بھی ہوئی تھی اور غصہ بھی آیا ۔ .آخر وہ  اتنے دنوں سے بغیر بتائے غائب جو ہو گئی تھی۔

رانیہ کالیگ۔۔۔۔۔۔۔

"اسلام علیکم"
وہ لاپرواہ سے انداز میں بولی رانیہ کی توقع کے خلاف۔ رانیہ کا خیال تھا کہ وہ اسکی کال دیکھ کر خوش ہوئی ہو گی۔
"وعلیکم اسلام"
اُسنے ذرا خیرت بھرے انداز میں سلام کا جواب دیا۔
"جی کہیے کیا کام ہے آپکو؟"
اسکے انداز پر رانیہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا
" مجھے مایا سے بات کرنی ہے جو اپنی دوستوں سے ایسے بات ہر گز نہیں کر سکتی۔"
"آہ! افسوس  سے کہنا پر رہا ہے کہ وہ مایا مر چکی ہے۔"
وہ  غصے سے بولی۔
''ہوا کیا ہے یار اتنی خوشی سے کال کی تھی۔۔۔۔"
اسکا جملہ مایا نے کاٹ دیا۔
”آہ! تو فرصت مل گئی آپکو"
مایا ذرا طنزیہ انداز میں بولی۔
"یار سنو تو سوری نا ہم سب۔۔۔۔"
"اچھا ٹھیک ہے۔"

مایا نے آنکھوں کی نمی کو اندر  ڈھکیلا اور آواز   میں آئی نمی کو چھپا تے ہوئے بولا۔
اسے اچھا نہیں تھا لگا اسکا اس طرح بغیر بتائے چلے جانا۔اسنے بات ختم کر دی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ رانیہ  کچھ بھی بولے مگر وہ  خود اس بات سے مطمئن نہیں کر پائے گی۔وہ خود کو اچھے سے جانتی تھی ۔اس لیے درگزر کر گئی۔

"مایا"
وہ مایا  کے لہجے میں چھپی اُداسی کو پہچان گئی تھی۔اسی لیے شرمندگی سے بولی۔
"مایا یار پلیز سوری نا"
"چھوڑو اس بات کو ۔یہ بتاؤ کہ ہو کدھر آج کل؟"

مایا ناراضگی کو بھول کر اچھے انداز میں بولی۔
پھر کچھ دیر بعد وہ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں۔رانیہ نے  علیزے کا بھی بتایا کہ وہ  کدھر ہے۔وہ دونوں ہی کہیں گئی ہوئی تھیں اور اب واپس آ گئی  تو مایا سے رابطہ کیا۔انہوں نے کچھ دیر بات کی اور مایا خوش تھی کیونکہ وہ کچھ دنوں میں اسکے گھر آ رہی تھیں۔

کچھ دیر بعد۔۔۔۔۔

وہ اب بور وہ رہی تھی تو سوچا اب سیف کو بھی دیکھ لیا جائے۔اس لیے اسے میسج کیا۔
"اسلام علیکم۔"
پھر وہ اسکے جواب کا انتظار کرنے لگی۔مگر اسے پورا یقین نہیں تھا کہ وہ اسکے میسج کا جواب دے گا۔
جب کافی دیر انتظار کے بعد جواب نہ آیا تو وہ کمرے سے باہر چلی گئی۔فوزیہ کچن میں کام کر رہی تھیں تو وہ ان کے پاس شلف پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگی۔

اسی طرح اسکا سارا دن گزرا اور زینب بھی آ گئی۔انہوں نے بابا سے بات کی تو  انہوں نے بتایا کہ وہ اور سیف دو دن بعد آ رہے ہیں جس پر مایا کو بے انتہا خوشی ہوئی۔

مایا نے زینب کو شام میں بتایا کہ رانیہ کی کال آئی تھی اور یہ بھی کہ وہ کچھ دنوں میں آئے گیں۔

دو دن بعد.....

سیف اور عزیر رات کی فلائٹ سے آئے تھے اور کافی تھکے ہوئے تھے۔اس لیے کچھ خاص بات نہ ہوئی اور وہ آرام کرنے چلے گئے۔مایا ساری رات یہی سوچتی رہی کہ کہیں سیف کہ رویے سے بابا کو کچھ شک نہ ہو جائے۔
صبح فجر کے بعد تھوڑی روشنی پھیلنا شروع ہوئ تو مایا باہر لان میں آگئی اور کچھ دیر گھاس پر بیٹھی رہی۔اسے صبح کی ٹھنڈی ہوا اور پرندوں کی چہچہاہٹ سکون دے رہی تھی۔وہ سیف کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی کہ ایسی بھی کیا ناراضگی؟آخر وہ چاہتا کیا ہے؟
وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور جیسے ہی مڑنے لگی۔ اسکی نظر سیف کے کمرے کی بالکونی پر گئی اور اسے وہ بالکونی میں آتا دکھائی دیا۔وہ وہی رک گئ مگر سیف نے اسے نہ دیکھا۔
وہ صبح صبح کے اس دلکش منظر میں کھویا ہوا تھا۔پھر اسکی نظر مایا پر پڑی تو مایا کے لبوں ہر خود بہ خود ہی ایک مسکراہٹ آ گئی۔مگر جب اسکی توقع کے خلاف وہ جواب میں نہ مسکڑایا تو اسکی مسکراہٹ ہلکے سے ختم ہو گئی اور وہ سر جھکا گئی۔
پھر ذرا سا سر اٹھا کر اسنے سیف کو دیکھا۔مایا کو پتہ نہیں کیا ہوا کہ اسے اب سیف سے جھجھک محسوس ہونے لگی تھی۔اسکا اس طرح سے ذرا سا سر اٹھا کر دیکھنا اور پھر واپس جھکا کر دوبارہ اسی طرح دیکھنے پر سیف کو وی بہت معسوم سی لگی۔
اور ہلکی سی ایک مسکراہٹ اسکے لبوں کو چھو گئ۔ اگر مایا اس مسکراہٹ کی تلاش میں نہ ہوتی تو وہ نہ محسوس کر پاتی کہ وہ مسکرا رہا ہے۔اسے مایا شرمندہ سی لگی تو وہ مسکراہٹ طنزیہ مسکراہٹ میں بدل گئی۔
مایا اسکی حرکت بھانپ گئی اور خفا ہو کر نظریں موڑ گئی۔مگر وہ اس پر سے نظریں ہی نہیں ہٹا رہا تھا۔ اس لیے مایا کی نظریں دوبارہ اس پر جا ٹکی۔ وہ اسے تنگ کرنے کی گرز سے ایسا کر رہا تھا۔اس بار دونوں کی نظریں ملی تو دونوں ہی ہنس دئیے۔
سیف چونکہ بالکونی میں کھڑا تھا تو اس نے مایا سے اشارتاً پوچھا کہ کیا وہ ادھر آ جائے۔جس پر مایا کی آنکھیں فوراً سے پھیل گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ کیسے آئے گا۔
مایا نے فورا نفی میں سر ہلایا جبکہ اسنے اسکے نفی کو نظر انداز کیا اور مزے سے مسکراتے ہوئے بالکونی کی ریلینگ کے اُپر سے گزر کر احتیاط سے بالکونی  کے نیچے لٹک کر اُنچی چھلاگ لگائی جس سے ہمیشہ اسکی پسلیوں میں درد ہو جاتی تھی مگر وہ باز نہ آتا۔
آج بھی ایسا ہی ہوا۔پھر اسنے اپنی کمر سیدھی کی اور گیٹ سے داخل ہوتے  ہوئے گارڈ اور کامران بھائی کو سلام کیا۔مایا اسے غصے سے دیکھ رہی تھی اسکی حرکتیں ہی ایسی تھیں۔وہ اسکی طرف آیا تو وہ زیرِ لب بربرائ۔
"بندر۔"
وہ ہنس دیا۔جبکہ اسے کمر میں درد تھی۔
"اپنے بارے میں کیا خیال ہے بندری۔...مینے کیمڑے سے دیکھا تھا کہ تم درخت پر کیسے چڑھ رہی تھی۔"
وہ اسے تنگ کرتا بولا۔
"ہاں تو انسان درخت پر چڑھتے ہیں۔"
وہ ہار تو نہیں مان سکتی تھی نا۔اس لیے ایک ادا سے بولی
"تو انسان دیوار پر بھی چڑھتے اور اُترتے ہیں۔"
وہ بھی اسی کے لہجے میں بولا۔
"جب سیڑھیاں دستیاب ہوں تو کوئی پاگل بھی اس طرح نیچے نہیں اُترتا۔"
"اپنا بتا رہی ہو؟"
اسنے زومعانی انداز میں اسے پاگل کہا اور وہ دوبارہ سے اسے گھوڑنے لگی۔وہ اسکے ایسے گھوڑنے پر لطف اندوذ ہوا تھا۔
"دفا ہو جاؤ۔"
وہ جانے کیلیے پلٹتے ہوئے غصے سے بولی۔وہ فورا سے اسکا رستہ روکتا اسکے سامنے آیا۔
"ایک منٹ۔ایک تو میں کمر تڑوا کر ادھر آیا ہوں اور تم جا رہی ہو۔"
وہ بیچارگی سے بولا۔
"جی۔میں جا رہی ہوں۔اور شکر کہ تمہارے دماغ میں یہ بات بیٹھی کہ وہاں سے چھلانگ لگانا کمر تڑوا سکتا ہے نا کہ یہ بچوں کا کھیل ہے۔"
وہ غصے سے بولتی ہوئی دوبارہ سے قدم بڑھانے لگی تو وہ جلدی سے بولا۔
"اچھا رپلائے نہ کرنے پر ناراض ہو کیا؟"
اسکے بولنے کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ سنجیدہ ہے۔مایا کو روکنا پڑا۔
"نہیں تو..... "
وہ ناراض تو تھی مگر اسے وہ سنجیدہ پسند نہ آیا تھا۔
اُسے سیف سے شکوہ تو تھا مگر وہ بےبس تھی۔ اسے ہمیشہ ڈر رہتا تھا کہ اسکا روکھا رویہ اسکو تکلیف نہ دے جائے۔
"تو پھر؟"

وہ ابھی بھی اسی سنجیدگی سے بولا کہ مایا کو اپنا دل ویران سا محسوس ہوا۔سیف کو سمجھ نہ آئی کہ وہ اسکے لیے یہاں آیا ہے پھر وہ ناراض ہو کر کیوں جا رہی ہے۔
"اف سیف نہیں ہوں میں ناراض۔تم میرے لیے کچھ لائے نہیں ہو؟"
اسے موضوعِ گفتگو  بدلنا ہی ٹھیک لگا۔
"آہ!  کس نے کہا میں تمہارے لیے کچھ نہیں لایا۔"

وہ پرجوش سا ہوکر بولا۔
"میں تمہیں دوپہر کو دونگا۔"
وہ اب کافی خوش لگ رہا تھا۔
"کیا لائے ہو۔"
مایا بےصبری سی ہو کر بولی۔
"آہاں! ایسے نہیں۔تم بعد میں خود ہی دیکھ لینا۔"

وہ پرجوش لہجے میں سرگوشی کرتا بولا جیسے یہ کوئی راز ہو۔جو بھی تھا اس سے خود بھی دوپہر تک کا انتظار نہیں ہو رہا تھا۔ مگر وہ اسے اکیلے میں دینا چاہتا تھا ۔تھا ہی کچھ ایسا اس تخفے میں اور ابھی گیٹ ہر کامران بھائ کچھ کام کر رہے تھے۔
"بس تم وعدہ کرو کہ یہ ہم دونوں کے درمیان ہی رہے گا۔"

وہ دوبارہ سرکوشی میں بولا۔ اسکے ایسا کرنے پر شاید صرف وہی تھی جو گھایل نہ ہوتی۔اگر کوئ اور ہوتی تو ضرور بےہوش ہوجاتی۔
"کیوں؟"
اسنے اسے ناسمجھی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"وہ چیز ہے ہی ایسی۔ مجھے پسند تھی تو مینے سوچا... "

بات کے اختتام ہر وہ کندھے اُچکا گیا۔مایا کو کچھ سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا چیز ہوگی۔مگر  اسے جاننے کیلیے دوپہر تک کا انتظار کرنا تھا۔
"اب میں چلتا ہوں... مجھے ایک کام سے جانا ہے۔"
"کیا کام ہے؟"
"علی کے ساتھ کہیں جانا ہے۔"
"کہاں؟"
"میڈم اب آپ مجھ سے اتنی اُمیدیں بھی نہ رکھیں..."

وہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا تو مایا ہڑبڑا کر خاموش ہو گئ اور وہ پلٹ گیا۔
"اسکو میرا سلام کہنا۔"

مایا نے اُلٹا اسے تپا دیا۔جانتی تھی کہ وہ ایسا نہیں کرے گا اور اُسے اسکے ایسا کہنے پر غصہ بھی آیا ہو گا۔وہ بغیر پلٹے بولا۔
"خود ہی کہہ دینا۔ میرے پاس ان کاموں کے لیے وقت نہیں ہے۔"

مایا ہنس دی کیوں کے جانتی تھی کے اس نے کس طرح منہ بگاڑ کر ایسا بولا ہوگا۔مایا کی ہنسنے کی آواز اسے اور تپا گئی تھی۔
پھر جب وہ چلا گیا تو مایا بھی مسکراتے ہوئے سر جھٹک کر اندر چلی گئی۔

"مجھے رات کا اندھیرا نہیں پسند جب دن کی روشنی ہو دستاب۔"
اندر جاتے ہوئے اسکے ذہن میں یہ الفاظ گھوم رہے تھے اور اسکے لبوں پر ایک مسکراہٹ جم سی گئی تھی۔

وہ لاؤنچ میں آئی تو اُسے عزیر کمرے سے باہر آتے دکھے اور وہ فورا انکے پاس گئی۔
"بابا جانی!اسلام علیکم۔"
وہ پرجوش سی ہو کر بولی تو وہ در گئے تھے ایک پل کےلیے۔انہیں صرف مایا ہی سے ڈر لگتا تھا۔
"واعلیکم اسلام۔"
انہیں مایا کو ایسے صبح صبح خوش دیکھ کر اچھا لگا تھا۔
"آپ کچھ اور دیر آرام کر لیتے۔"
"نہیں۔میری نیند پوری ہو چکی ہے اور میری ٹھکاوٹ بھی اُتر چکی ہے تو سوچا اب کچھ دیر اپنی شہزادیوں کے ساتھ بھی بیٹھ جاؤں۔"
"اب تو آپکو ہم نے اتنی آسانی سے جانے نہیں دینا۔چاہے کچھ بھی ہو جائے۔"
وہ انکے بازو میں بازو ڈالے لاؤنچ میں آتی بولی۔
"جی بلکل۔ اب آپ لمبے عرصے کیلیے واپس جانا بھول جائیں۔"
زینب کاوچ سے اٹھتی اُنکی طرف آتی بولی اور انکے گلے لگ گئی۔
"وہ تو وقت ہی بتائے گا۔"
وہ بولے تو ان دونوں کا منہ بن گیا۔آخر وہ سہی جو کہہ رہے تھے۔
"اگر اسطرح منہ ہی لٹکائے رہو گی تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔"
وہ ان دونوں کو تنگ کرتے بولے۔
"جیسے ہم آپکو جانے دے گیں۔"
زینب بولی تو وہ ہنس دیئے۔

انہوں نے ناشتہ کر لیا تو آضب بھائی بھی آگئے ۔
"اسلام علیکم چاچو۔"
وہ آتے ساتھ ان سے گرمجوشی سے ملے۔عزیر کے چہرے ہر آضب کع دیکھ ایک تبسم سا آ گیا۔ اور وہ سلام کا جواب دیتے ہوئے انہیں گلے ملے۔
"ہم بھی مسلمان ہی ہیں۔"
مایا طنز سے بولی تو وہ مسکرا دئیےاور سلام کہا۔
پھر عزیر نے آضب سے کافی باتیں کیں وہ دونوں بھائی ان کے لیے انکے بیٹوں ہی کی طرح تھے۔
ان کے چلے جانے کے بعد مایا نے عزیر کو زبردستی کمرے میں بھیج دیا کہ آرام کریں اور خود بھی کمرے میں چلی گئ۔
وہ کمرے میں بیٹھی علیزے اور رآنیہ کی کال کا انتظار کر رنے لگی۔انہوں نے کہا تھا کہا کہ وہ اس وقت کال کریں گیں۔
پانچ منٹ کے انتظار کے بعد بلآخر ان کی کال آ ہی گئ۔

"اسلام علیکم۔"
اسنے کال اٹھاتے ساتھ ہی پرجوش انداز میں سلام کہا اور ان دونوں نے اکٹھے ہی  جواب دیا۔
"واعلیکم سلام۔"
"مایا کیسی ہو؟"
علیزے بےحد خوش لگ رہی تھی۔
"تمہاری بلا سے ٹھیک ہوں۔"
وہ منہ بنا کر بولی۔
"یار اب کیا ہوا؟"
علیزے ذرا خفگی سے بولی۔
"تم لوگ کب آ رہی ہو؟ "
مایا بیڈ سے اُتر کر کاؤچ پر آ بیٹھی۔
"آآآ! پتہ نہیں۔"
رآنیہ پرسوچ انداز میں بولی ۔
"میں سوچ رہی تھی کہ ہم کہیں باہر چلتے ہیں ۔گھر رہ کر بور ہی ہوں گیں۔"
علیزہ  نے ہمیشہ کی طرح بات  سے آگے ہی کی بات کی۔
"اُف! پہلے یہ تو بتاؤ کہ آ کب رہی ہو؟"
مایا  ضبط سے بولی ۔
"ہم؟ ہم ابھی آ جاتے ہیں اگر تم اجازت دو تو۔۔۔"
علیزے کے دماغ میں یہی ْآیا اور وہ بول گئ مگر قصدِ دل سے بولی تھی۔
"کیوں نہیں۔"
مایا خوشی سے اُچھلی۔
"تم لوگ یونی گئے تھے؟"
مایا نے کچھ یاد آنے پر پوچھا۔
"نہیں میں نہیں ۔ علیزہ گئ تھی۔"
"میں بھی گئی تھی۔"
وہ دراصل انہیں آید کے بارے میں بتانا چاہ رہی تھی۔
"آہ! مینے سوچا تھا میں تمہارے ساتھ چلی جاؤ گی۔"
رآنیہ افسوس سے بولی۔
"تو پھر میں تمہارے ساتھ دوبارہ چلی جاؤ گی۔"
"سچی۔"
"میں بھی چلوں گی ۔"
" تو آ جانا ہم نے کونسا روکا ہوا۔"
رانیہ اسکو تنگ کرتی بولی۔
.
"اچھا سنو میں نے تم لوگوں کو ایک بات بتانی تھی۔"
مایا ذرا ہچکچاتے ہوۓ بولیَ
"کیا ہوا؟"
علیزہ نے تجسساً پوچھا۔
مایا الفاظ کا انتخاب کر رہی تھی کہ رآنیہ سے صبر نہ ہوا۔
"یار جلدی بتاؤ۔"
"گائز! مجھے سمجھ نہیں آ رہی کیسے بات شروع کروں۔ایسا کرتے جب ملے گیں تب بتاؤ گی۔"
"مایا تم مجھے تجسس میں ڈال گئی ہو۔"
علیزے کو اس ہر غصہ آیا۔
"تم لوگ آ کب رہے ہو؟"
مایا غصے سے بولی۔
"بتایا تو تھا کہ ابھی۔"
علیزہ بولی اور اسکے کہنے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ واقعی میں ابھی آ رہی ہے۔
"کیا؟"
مایا کو یقین نہ تھا کہ وہ واقعتاً اس وقت آنے کا سوچ ہی ہیں۔
"جی بلکل۔ہم ابھی آ رہے ہیں۔"
مایا خوشی سے اچھلی۔
" تو جلدی آ جاؤ میں انتظار کر رہی ۔او ہاں!  بابا آ گئے ہیں کل رات کو۔"
اسے ابھی یاد آیا تھا بتانا۔
"تم ابھی بتا رہی ہو۔اچھا ہے ان سے بھی مل لیں گیں۔"
رانیہ اسکے بتانے پر فوراً بول اُٹھی۔
"میں ناشتہ تمہاری طرف کروں گی۔تیار رکھنا۔"
علیزے نے ابھی ناشتہ نہیں کیا تھا۔
"ہمم۔ٹھیک ہے۔میں انتظار کر رہی ہوں۔"

اسی کے ساتھ ان تینوں نے کال بند کر دی اور مایا ان لوگوں کے لیے ناشتہ نبوانے چلی گئی۔

کچھ دیر بعد....

علیزہ آئی تھی اور رانیہ اس سے پہلے ہی آ چکی تھی۔
"اسلام علیکم۔"
وہ بیڈ پر بیٹھتی بولی۔وہ جب بھی آتیں تو پہلے کمرے میں ہی آتیں۔اور کمرے میں ابایا اتار کر پھر باہر جاتیں۔
"واعلیکم اسلام۔"
دونوں نے اسکے سلام کا جواب دیا۔
"ناشتہ کدھر ہے۔میں پہلے ناشتہ کروں گیں۔"
اسنے آتے ساتھ عادتاً پہلے کھانے کا ہی پوچھا۔
"بھوکی عورت پہلے سانس تو لے لو۔فقیروں کی طرح پہلے ناشتہ مانگے لگ گئی ہو۔"
مایا اسکو گلے ملتے بولی۔
"میرے خیال سے فقیر بھی ایسا نہیں کرتے۔"
رانیہ ہنستے ہوئے بولی۔
"ناشتہ؟"
وہ ان دونوں کے بولے گئے جملوں کو نظر انداز کرتی بولی۔
"آؤ تیار ہے۔تمہارا انتظار کر رہا ہے۔"
"سچی۔جلدی چلو۔"
وہ فورا سے اٹھ کھڑی ہوئ۔
"ویسے تمہیں اب اپنی بھوک کو قابو کرنا چاہیےکیونکہ موتی ہوتی جا رہی ہو۔"

مایا نے اسکو مشورۃ بولا۔
"اسی لیے تو جِم جواین کرنے کا سوچ رہی ہوں۔تم لوگ بھی کر لو۔"
"نہیں ہمیں ضرورت نہیں ہے نہ کوئی شوق ہے۔"
رانیہ بولی تو اسکا منہ بن گیا۔
"یار مجھے تھوڑی سی کمپنی دے دینا۔"
وہ بےچاری سی ہو کر بولی۔
"نہیں تمہیں کمپنی دینے والے اور لوگ ہوں گیں نا وہاں۔"
مایا ہنستے ہوئے بولی کہ وہ انہیں نہیں منا پائ اور منا سکتی بھی نہیں تھی۔
"اچھا ٹھیک ہے۔"
وہ منہ بنا کر بولی اور وہ دونوں اسکے تنگ کرنے کے لیے ذور سے ہنس دیں۔

عزیر ابھی کمرے سے نہ آئے تھے نہ مایا نے انہیں تنگ کیا اور وہ تینوں کمرے میں چلی گئیں۔
"چلو اب بتاؤ کہ تم نے کیا بات کرنی تھی۔"

وہ تینوں کاوچ پر گوڈ میں ایک ایک کوشن لیے بیٹھی تھیں۔ علیزے نے بولا تو مایا پھر سے الفاظ کے چناؤ کے لیے سوچ میں پر گئی۔
"یار! دراصل کسی شخص کے بارے میں ہے۔"
وہ ذرا اُلجھی ہوئی بولی۔
"کیا؟ یہ کوئی شخص ہے؟"

وہ دونوں ہی بےصبری سی اسکے جواب کا انتظا کرنے لگیں۔
اسنے کچھ بولنے کیلیے منہ کھولا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئ۔
.................................................................
اسلام علیکم...... 🙃
چلو اب تو آپ نے chapter پڑھ لیا نا... تو vote..... بھی کر دیں اگر chapter اچھا لگا ہو تو.....
I don't force you and also can't ... I know🙄.

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ
’ جس کے مال یا جان میں مصیبت آئی پھر اس نے اسے پوشیدہ رکھا اور لوگوں پر ظاہر نہ کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اس کی مغفرت فرمادے۔"
اللہ خافظ.... 💛💛💛

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen2U.Pro