Episode 1

Màu nền
Font chữ
Font size
Chiều cao dòng

کبھی شمع جلا  کرے

کبھی پروانہ جلا کرے

کافر عشق میں یوں ہی

ہجر و وصل ہوا کرے

(نور  فاطمہ )

دو بڑی سیاہ گاڑیوں کے بیچ  نواب غازان مری کی گاڑی سڑک پر رواں تھی کسی آندھی کی طرح گاڑیاں سڑک سے گزر رہی تھی نظروں کے تعاقب میں اڑتی ہوئی دھول کے سوا کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا  """"

اتنی تیز رفتار سے زندگی بھی گزر رہی تھی اور زندگی کی تیز رفتاری سے یادوں کی اک دھول اڑتی دکھائی دے رہی تھی یکے بعد دیگرے سب فاضل  خان کے مین گیٹ کے سامنے آ کر رکی """

گارڈز نے اتر کر دروازہ کھولا ایک نوجوان اترا جس نے سفید  بگی شلوار اور ڈھیلی سی لمبی آستینوں والی کمیز اور سفید پگ کے ساتھ بازوں پے چمچماتی گھڑی پہنی تھی"

حلیے سے وہ کسی ریس خاندان کا سپوت لگتا تھا "

سائیں !!

دروازے پر جو گارڈ تھا جلدی سے اس نوجوان کی ٹانگوں سے لپٹ گیا """

اتنے میں ایک آدمی آگے ہوا اور بولا سرکار کو راہ دو ""

سرکار گھر پر کوئی نہیں ہے "

اس گھر میں تو کوئی مرد ہی نہیں ہے جلدی کھولو دروازہ غازان کی آنکھیں سرخ تھی غصہ تو جیسے اسکی ناک پر رہتا تھا """"
(بہتر )!!!

گیٹ کیپر یہ کہتے ہوے دروازے کی طرف لپکا """""

اسے اپنی پھوپھو کے گھر بیٹھے ہوے ایک گھنٹہ ہونے والا تھا """

تئی سرکار کدی کئیت ؟؟؟؟

سرکار وہ سر جی آفس ہیں بی بی بھی  اور ایمل مام صاحب یونیبرسٹی جب کہ ماہ گل بی بی کالج ہیں """

ہمم غازان اپنی مونچھ کو تاؤ دیتا ہوا کچھ سوچ کر اٹھ گیا  ""

(آپ کہاں جا رہے ہیں ؟)

من یونیبرسٹی روگااوں """"

جیسا حکم سرکار """

15 منٹ کی مسافت کے بعد گاڑی خواتین کی  پرائیویٹ یونی  کے سامنے کھڑی تھی """"
اور یہ وقت بھی ایمل کے گھر آنے کا تھا تو وہ گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے دروازے پر نظریں جمائے کھڑا رہا ""

دور سے آتی ہوئی ایمل کو دیکھ کر ایک لمہے کو غازان کے چہرے پر اک مسکراہٹ بکھری تھی جو جلد ہی مدهم ہو گئی وہ اور اسکی سہیلی سامنے گاڑی میں بیٹھے نوجوان کے ساتھ جا بیٹھی اور یہ ہی صرف غازان کے لئے تیش میں آنے کے لئے کافی نہیں تھا بلکے غضب تو یہ تھا کے ایمل اس نوجوان کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی جب کہ دوسری لڑکی پچھلی سیٹ پر براجمان تھی """"

سائیں گاڑی کا نمبر نوٹ کر لیا ہے """"

اسکے  خاص ملازم نے آگے ہو کر سرگوشی کی """""

جبکہ غازان اپنی مٹھی بھینچ کر رہ گیا "

*******

سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ آگ کی مانند چمک کر اب ڈوب جانے کے در پے تھا اور پھر رات کی تاریكی میں پھیلتی ہوئی چاند کی کرنیں  اب اسکی تپش کو ٹھنڈا کرتی جا رہی تھی """"

وہ واپس گھر آ کر  لاونج  میں بیٹھ کر اپنے والد سے کال پر بات کرنے لگا اس نے ساری روداد سنا دی تھی اور اب بس فیصلے کا انتظار تھا """"

اس میں کوئی شک نہیں تھا کے ایمل کی منگنی اس وقت اس کے ساتھ ہو گئی تھی جب وہ اس دنیا میں آئی تھی مگر حقیقت یہ تھی کے اس نے ہمیشہ سے ایمل پر اپنا حق ہی سمجھا تھا ایمل کے علاوہ اس کی نظروں نے کسی نا آشنا چہرے کو نہیں دیکھا تھا """""

کچھ دیر میں ایک 20 سال کی لڑکی نے دروازے پر دستک دی """"

میں آ جاؤں ؟؟

ماہ گل """

جو کے غازان کو دیکھ کر بلکل خوش نہیں تھی دروازے پر کھڑی بولی "

آ جاؤ """

ماہ گل کے اندر آنے کے بعد وہ بیڈ سے اٹھا اور اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا """

کیسے حالات ہیں تمہارے گھر کے ؟؟

وہ سوال کر کے  ایک سیکنڈ رکا اور پھر بولا "

مجھے تو خاصے برے نظر آ رہے لگتا تمھارے پت سے اپنی نوابزادیاں نہیں سمبھل رہی """"

ککیا ؟؟

ماہ گل جو کے پہلے ہی اتنی خوفزدہ تھی اسے اپنے پاس کھڑا دیکھ کر مزید ڈر گئی """

آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے بڑے سائیں کے سمجھانے کے بعد وہ ہم پر بہت سختی کرتے ہیں ہمیں باہر بھی نہیں جانے دیتے کالج چھوڑنے بھی ڈرایور جاتا ہے اور واپس بھی وہی لاتا ہے اور آج میرا آخری پرچہ تھا میں کچھ دنوں میں ایمل  کے ساتھ ہی جاؤں گی آپ جانتے ہیں نہ وہ لڑکیوں  کی یونیورسٹی ہے  """"

ماہ گل نے جیسے ایک ہی سانس میں ساری روداد سنا دی """

میری منگ کہاں ہے اس وقت  ؟؟؟؟

وہ ۔۔

وہ اس کی آج اکسٹرا کلاس تھی """

غازان  طنزیہ مسکراہٹ کے بعد گرج دار آواز میں بولا """"

کس بے غیرت کے ساتھ ؟؟؟

اسکی آواز اتنی روب دار تھی کے ماہ گل کو لگا اسکی جان نکل جائے گی """"

وہ آنسوں ضبط کرنا چاہتی تھی جو خوف کے مارے اس کی سیاہ  آنکھوں سے نکلنے کو  امڈ رہے تھے مگر وہ ناکام رہی اور تیزی سے بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں آ گئی  """""

کہاں ہو تم ؟؟؟؟

تیزی سے کامپتے ہوے ہاتھوں سے اس نے ایمل کو فون ملایا """"

میں فرنڈز کے ساتھ ""

کیوں کیا ہوا ؟

غازان ۔۔۔

اس منحوس کی تمھے کیوں یاد آ رہی ہے ؟؟؟

وہ گھر پر بیٹھے  ہیں ""

تو ؟؟

میں کیا کروں وہ بیٹھا ہے تو یہاں کا نواب تھوڑی ہے """

اس نے تمھے کسی لڑکے کے ساتھ دیکھ لیا  مِلی  """'

کیا ؟؟؟؟

ایمل نےجھٹ سے فون کاٹ دیا """"
ماہ گل  خوف کے مارے اپنا کمرا لاک کر کے وہیں بیٹھ گئی جب تک بابا نہیں آ جاتے میں نیچے نہیں جاؤں گی اس نے خود کو یقین دہانی کرائی
******

رات کے 8 بج رہے تھے ایک گاڑی آ کر گیراج میں رکی گاڑی  سےبختاور اور فاضل خان کے علاوہ وہ بھی چہرہ نمودار ہوا جس کا اسے انتظار تھا ایمل خان """"

تینوں مسکراتے ہوے گیٹ سے اندر آے ماہ گل جو کے صبح سے اپنے کمرے میں بند تھی بھاگتی ہوئی آئ  ""

ماہ گل کو خوف تھا کے ایک طوفان آنے والا ہے غازان مری کا یہاں ہونا بھی کسی طوفان سے کم نہیں تھا """

ایمل نے اسے آنکھوں سے مطمئن رہنے کا اشارہ کر دیا تھا اور وہ چہرے سے بھی کافی پر سکون نظر آ رہی تھی ""'""

غازان تم!!

بختاور مسکراتی ہوئی اس سے آ کر ملی جب کے اس کی باڈی لینگوج اس کے غصے اور غذب کی آگاہی دے رہے تھے """

اوه غازان تم کب آے میں نے تمہے دیکھا نہیں فاضل خان جو کے کچھ سیکنڈ پہلے اس کے سامنے سے گزرے تھے اپنی بیوی کی آواز پر رکے اور بولے """"

انہوں نے واقعی دیکھا نہیں تھا یا جان کر ان دیکھا کر گئے تھے جب سے انہوں نے بزنس کی دنیا میں ایک بڑا نام بنا لیا تھا تب سے ہی وہ ہر کسی کو حقیر سمجھنے لگ گئے تھے مگر وہ شاید بھول رہے تھے ان کے سامنے کوئی اور نہیں نواب غازان مری کھڑا تھا """"

نا فاضل خان نا """"

غازان ہنستا ہوا فاضل کے سامنے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا """

یہ ناٹک یہاں نہیں چلے گا اپنی اوقات مت بھولو میرے بابا سرکار کے جوتے سیدھے کرنے والے نوکر ہو تم ان کے اکلوتے بیٹے کو نا پہچان سکو یہ نہیں ہو سکتا """

بختاور جو کے مسکرا رہی تھی یقدم اس کی ہنسی غائب ہو گئی """

فاضل خان کی نفرت مزید گہری ہو گئی تھی

اتنا وقت گزرنے کے بعد آج جب وہ ان نوابوں کے برابر آ گیا تھا یا شاید ان جاہل ان پڑھ لوگوں سے کئی گنا زیادہ نام کما چکا تھا اب بھی یہ کل کا نوجوان اس کی عزت نفس کو روند رہا تھا اور وہ کچھ نہیں کر پا رہا تھا """

مائنڈ یور لینگوج جاہل انسان !!!!!

ایمل نے انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوے اسے وارن کیا ""

ایک بلند قہقے کے بعد وہ ایمل کی طرف بڑا ایمل جو کے جانتی تھی کے وہ کتنا پاگل ہے جلدی سے اپنی ماں کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی """

تم تو بولو ہی مت ایمل فاضل خان !!!!

غازان کو لگا کے شاید وہ اپنا آپا کھو دے گا اور ایمل کی جان ہی لے لے گا مگر اس نے اپنے آپ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی """

مگر ایمل کہاں چپ رہنے والی تھی مزید بولی """

ڈیڈ اس جاہل کو باہر نکلوایں

Who the hell is he?

یہاں  ہم سب کے سامنے آپ کی بیزتی کیسے کر سکتا ہے "

شٹ اپ ایمل بختاور نے ایمل کو خاموش کرایا "

بولنے دو اس کو اس کے پر جو لگ گئے ہیں جب سارا دن اپنے عاشق کے ساتھ گزارے گی تو ہوا میں تو اڑے گی """

بکواس بند کرو اپنی فاضل خان اب اپنے ضبط کی ساری حدیں توڑنے کو تیار تھے کیوں کے غازان بھی ہر حد  توڑ چکا تھا """""

انہوں نے ایک زور دار تماچہ مارنے کے لیے ہاتھ ہوا میں بلند کیا ہی تھا کے غازان نے انھے دھکا دے کر اپنی گن ان پر تان لی """"

بابا """

ماہ گل اپنے باپ کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی """

وہ اپنے بابا پر جان نچھاور  کرتی تھی اور فاضل خان کے لیے بھی سب سے بڑھ کر ووہی تو تھی جس کی پیدائش کے بعد انھے ہر وہ شے ملی جس کا انہوں نے خواب دیکھا تھا """""

وہ بلکل غازان کی بندوق کے سامنے کھڑی تھی وہ جو کے اس شخص کی آواز سے بھی کانمپ جاتی تھی آج بغیر کسی خوف کے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی تھی '"" """"

بند کرو یہ تماشہ  !!!

ایک گرج دار آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا

سرکار !!!

غازان اپنے والد کو دیکھ کر بلکل حیران تھا """

مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی غازان !!!!!!!

مگر ہماری بات سنیں سرکار !!!

غازان آگے بڑا ہی تھا کے بختاور روتے ہوے اپنے بھائی کے قدموں میں بیٹھ گئی """

اس دن کے لئے میں نے اپنی شہزادی بیٹی کا رشتہ آپ کے بیٹے سے طہ کیا تھا کے یہ اس پر تہمت لگائے """"

بس کرو بختاور ابھی میں زندہ ہوں !!!!!

فاضل خان جلدی سے آ کر اپنی بیوی کی پاس بیٹھ کر بولا """""

اب یہ ظلم نہیں ہونے دوں گا میں اپنی بیٹی کے ساتھ !!!

نواب بہرام مری آگے بڑھ کر اپنی بہن کو اٹھاتے ہووے بولا ابھی ہم زندہ ہیں فیصلہ ہم کریں گے اور تم لوگ جانتے ہو مجہے  میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کروں گا نا ہی ہونے دوں گا !!!
اچھا تو کیا کریں گے آپ اپنے جھوٹھے بیٹے کے لیے کون سی سزا تجویز کریں گے ایمل بلکل بھی شرمندہ نہیں تھی بلکے اس میں اور زیادہ کونفڈینس آ گیا تھا
مجہے اس انسان کی شکل نہیں دیکھنی جس نے میرے قردار پر انگلی اٹھائ ہے !!؟
اگر تو غازان جھوٹ بول رہا ہے تو کل کے بعد وہ کسی چیز کا حقدار نہیں رہے گا میری گدی کا اکلوتا وارث نہیں رہے گا اور نہ ہی میری جائیداد پر اس کا حق رہے گا لیکن اگر تمہاری بیٹی واقعی غلط ہے تو اس کو وہی سزا ملے گی جو کسی بھی  لڑکی کو ملتی ہے جو اپنے خاندان کی لاج نا رکھ سکے""""

اس کا فیصلہ با قاعدہ جرگے میں ہو گا """

ہر گز نہیں !!!!!

تم نے سوچ بھی کیسے لیا ""

اب کی بار فاضل خان بغیر کسی لحاض کے بولا تھا  ""

تم اپنے بیٹے کے خلاف فیصلہ کیسے کر سکتے ہو ""

تمھے لگتا ہے میں اپنی بیٹی کی زندگی سے تمھے کھیلنے دوں  گا نکل جاو یہاں سے دفع ہو جاو """"

اےے ے !!!

غازان نے فاضل خان کو گلے سے دبوچ لیا """"

چھوڑ دو غازان !!!!

بہرام نے اپنی بہن سے پوچھا کیا تم بھی جرگے کو نہیں مانتی !!!!!

نھیننن !!!!

بختاور نے اپنے شوہر کی طرف دیکھ کر کہا

میں اپنے شوہر کے ساتھ ہوں !!!!

ہمیں آپ لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھنا ہماری زندگی کو مزید خراب نا کریں """""

یہ وہی بہن تھی جس کے لئے بہرام نے اپنے اصول توڑے تھے """

جو بھی آج حالات تھے اس میں کوئی شک نہیں تھا کے بہرام اپنی بہن سے اپنی جان سے زیادہ پیار کرتا تھا  """"

ایک لمہے کو ان کا دل ڈوب گیا مگر انھوں نے اپنے جذبات پر قابو رکھا

" آج کے بعد ہمارا کوئی تعلق نہیں تم لوگوں سے اور خاندان میں جو کوئی تم سے تعلق رکھے گا اسے سخت سے سخت سزا دی جائے گی ہمارے لیے تم مر گئی بختاور  """""

مجہے منظور ہے !!!

بختاور نے سخت لہجے میں جواب دیا اب نفرت اس کے لہجے سے جھلک رہی تھی ہر کسی کو اپنی اولاد سب سے آگے ہوتی ہے اور یہاں بات انکی بیٹی کی تھی  !!!!

چلو غازان !!!!

بہرام جلدی سے باہر جا کر گاڑی میں بیٹھ گئے "

یہ میرے سرکار کا فیصلہ تھا مگر میں کچھ فیصلوں پر دوبارہ سنوائی کرواتا ہوں اور اپنے ہاتھوں سے سزا دیتا ہوں  یاد رکھنا فاضل خان پچھتاؤ گے !!!!!

جاؤ جاؤ نکلو """

فاضل خان کی حویلی میں ایک گہرا سناٹا تھا جیسے کوئی طوفان سب اڑا کر لے گیا ہو """

******

(جاری ہے)

Bạn đang đọc truyện trên: Truyen2U.Pro